Monday 29 October 2012

میری بہن ۔ تیسرا حصہ ۔ بہن کو بستر پر لٹایا

ردا کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کا جنگلی پن تھا جو میں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے ردا کو کھڑا کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے پیٹ سے لیتا ہوا ہلکے سے کمر کے نچلے حصہ پر لے گیا اور اس کے گرم اور پیاسے بدن کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اب ایک جوان بھائی اپنی بہن کا گرم بدن سے کھیلنے کو تیار تھا۔ میرا خیال ہے کہ جو جذبات میں نے اپنی بہن کے گرم بدن کے لئے چھپا کر رکھے تھے وہ ردا نے بھی اپنے بھائی کے لئے سنبھال کر رکھے تھے۔ ردا نے ہلکے سے کان میں کہا : شعیب دروازہ تو بند کر دو۔ میں نے کہا کہ کیا فرق پڑتا ہے کون دیکھ رہا ہے اور اگر بند کر دیا تو ننگی ہوگی میرے سامنے۔ یہ کہہ کر میں نے اس کو اپنے بدن سے الگ کیا اور دروازہ کی کنڈی لگا دی۔
اب کمرے میں میں اور ردا اکیلے تھے برسوں کی ہوس اور حیوانیت جو میں نے اپنی بہن کے لئے رکھی تھی میرے چہرے پر عیاں تھی ردا نہ لائٹ پنک کلر کی قمیض اور پٹیالہ شلوار پہنی ہوئی تھی جس میں اس کا جوبن پوری طرح پاہر آرہا تھا۔ ردا کا حسین بدن میرے سامنے تھا میں نے ہلکے سے کہا : ردا کیسا لگ رہا ہے۔ ردا نے شرما کر کہا کہ شیعب کیسا لگے گا شرم آ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ اپنے بھائی سے کیسی شرم آو اس حسین بدن کو اپنے بھائی کا پانہوں میں دے دو۔ ردا نے شرم کے مارے آنکھیں بند کیں اور کچھ نہ بولی میں نے بھی دھیرے سے اس کا حسین تراشا ہوا بند اپنی بانہوں میں لے لیا۔ ردا کا بند ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا اور اس کے گرم جوانی اور ارمان ان کپڑوں سے امڈ امڈ کر باہر آرہے تھے۔ اور شاید میرا بھی بدن کانپ رہا تھا اور کیوں نہ کانپے۔ ہم دونوں کوئی عام مرد عورت نہیں بلکہ بہن بھائی تھے۔ہمارا بدن پیار کی بھٹی میں جل رہا تھا۔ ردا کا بدن پوری طرح گرم تھا مگر اپنے بھائی کے ساتھ پیار کے احساس سے ہلکا ہلکا ٹھنڈا بھی ہو رہا تھا۔ ظاہر ہے جو کام ہم کرنے جا رہے تھے اس کی کسی مذہب، معاشرے اور سماج میں اجازت نہیں تھی۔ پہلے پہل تو میں نے ردا کے کپکپاتے بدن کو اپنی پانہوں کا سہارا دیا اور اس کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اف ف ف ف ف ف ف میرے خدا اگر جنت کہیں تھی تو وہ یہیں تھی میں نے میں نے اس کے لرزتے شباب کو کس کر پکڑ لیا تھا اس کے جسم نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو کوئی مزاحمت بھی نہیں کی۔ میں سمجھ گیا کہ ردا کو اس وقت حوصلے اور پیار کی ضرورت تھی۔ میں نے ہلکے سے ردا کے کان میں کہا جان شرم چھوڑو نا اب تو ہم بہن بھائی سے زیادہ ایک دوسرے کے عاشق ہیں۔ ایک دوسرے کا بدن اپنی بانہوں میں لیے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ہم ایک دوسرے کا بدن کھائیں گے اور ایک دوسرے کا پھل چکھیں گے۔ جان لگاو نا اپنے جان کو اپنے گلے۔ میرے یہ جملے سن کر ردا نے کچھ کہا تو نہیں البتہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری گدی کے دونوں طرف ڈالے اور اپنی گرفت مظبوط کر لی اس کی گرم گرم سانسوں کی حرارت میرے گردن سے ٹکرا کر میرے بدن میں مستی بڑھا رہی تھی میں نے بھی ہاتھوں کو ہلکے ہلکے نیچے کیا اور ردا کی کمر کے گرد گھیرا ڈال کے اس کے جسم کو اپنے بدن کے اندر گھسا لیا۔ اور بھر ہاتھوں کر حرکت دے تک نیچے تک لے کر گیا اور اس کو چوتڑوں کو ہلکے سے دبایا۔ ردا کے چوتڑ بھاری تھے اور میرے دونوں ہاتھوں اپنی بہن کے دونوں چوتڑوں پر تھے اور اسے ہلکے ہلکے سے دبا رہے تھے۔ ردا کے بدن میں سے پرفیوم اور پسینہ کی ملی جلی جو آرہی تھی۔ ہر عورت کے بدن کی ایک خوشبو ہوتی ہے جس سے مرد اس کا غلام بنتا ہے ردا کے بدن کی خوشبو بلا شبہ کئی مردوں کو اس کا غلام بنا سکتی تھی۔ ہم دونوں کی سانسوں کی بھٹی ایک دوسرے سے ٹکرا کر پاگل کر رہی تھی۔ ردا کی سانسوں کی آواز اور آنچ سے میرا اعضائے تناسل بھی پوری طرح بیدار ہو گیا تھا جس کا احساس ردا کو بھی اچھی طرح ہو رہا تھا۔ میں نے ردا کے کان کی لو کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا۔ ردا کی بانہوں کی گرفت اور مظبوط ہوئی اور اب اس کا بدن ہلکے ہلکے اوپر نیچے بھی ہو رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ ردا کو میرے کھڑے لنڈ کا احساس پوری طرح ہو چکا ہے اور وہ اس کو سہلا رہی ہے۔ وہ میرے لنڈ کو مزہ دے رہی تھی اور میں اس کے کان کی لو کو چوس رہا تھا۔ چوستے چوستے میں نے ردا کے کان میں ہلکے سے کہا: ردا مائی لو۔ آئی لو یو۔ تمہارا بھائی تم سے بہت پیار کرتا ہے۔ یہ سن کر ردا نے بھی ہلکے سے کہا : آئی نو مائی برادر لو می145145۔ ایسی جملہ بازی اور چھیڑ چھاڑ کا عمل میں نے اگلے پانچ منٹ تک جاری رکھا اور اس کے بدن کے قصیدے پڑھے اور یہ بھی کہا کہ میری پانہوں میں اس وقت ایک حسین پری کا جسم موجود ہے جس کو میں آج کھیلوں گا۔ ردا بھی تھوڑی سے بے تکلف ہو چکی تھی۔ اس کے چہرے پر شرم کی جگہ ہلکے ہلکے پیار، سروو اور مستی نے لے لی تھی۔ اس نے مجھ سے مستی میں پوچھا: شیعب یہ نیچے کیاہے۔ میں نے کوئی جوب دینے کر بجائے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے اپنے پینٹ کے اندر لے گیا اور اعضائے تناسل پر رکھ کر کہا کہ تم خود ہی کیوں نہیں دیکھ لیتیں یہ چیز تمہارے بھائی ہی کہ تو ہے اس میں شرم کیسی۔ اس پر اپنے ہاتھ پھیرو۔ اب ردا کا ایک ہاتھ میرے لنڈ پر تھا اس کی ہاتھ کی ہلکی ہلکی گرفت مجھے بہکا رہی تھی میں نے ردا کے بدن کو کس کے پکڑا اور دونوں ہاتھ نیچے تک لے جا کر اس کے پیچھے کے کسے ہوئے ابھاروں پر رکھ دئے۔ اس کے علاوہ اپنی زبان نکال کر ردا کی گدی کے پاس کا حصہ بھی چوس رہا تھا اور گیلا کر رہا تھا۔ کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں کے شکنجہ میں تھے اس لئے ہم ایک دوسرے کے بدن کو ضرورت کو اچھی طرح محسوس کر سکتے تھے۔ ردا کے ہاتھ کی گرفت اب کچھ کچھ سخت ہو رہی تھی اس نے میرے لنڈ کو اوپر نیچے کرنا شروع کیا۔ یہ خیال رہے کہ اب تک ہم نے ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملائی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر ہم نے آنکھیں ملا لیں اور میں نظروں میں اپنی شہوانیت اس تک پہچانے میں کامیاب ہو گیا تو آج ردا پوری طرح سیکس کرنے کو تیار ہو جائے گی۔ میں نے اپنی نظروں میں شہوانیت بھر کے ردا کے حسین چیرے کی طرف نظر دوڑائی ویسے تو میری بہن ھمیشہ ہی خوبصورت لگتی تھی لیکن آج اس کا حسن دو آتشہ لگ رہا تھا۔ میں نے اس کے کان میں اپنے ہونٹ لے جا کر کہا : ردا میں یہ ہونٹ چوم سکتا ہوں۔ شرم اور ہوس سے بھرپور مسکراہٹ ردا کے چہرے پر آگئی۔ اس نے بھی میرے کان میں ہلکے سے کہا میں نے کب منع کیا ہے تمہاری بہن کا بدن تمہارا ہی تو ہے۔ میں نے ردا سے کہا کہ یہ بے ایمانی ہے۔ تم نے کہا تھا کہ دروازہ بند کرلوں تو کپڑے اتر دو گی اور اب تک تم نے کپڑے نہیں اتارے۔ ردا چلو نہ ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے ہیں۔ بہت مزہ آئے گا۔ ردا نے ایک شرماہٹ کے ساتھ میری قمیص کے بٹن کھولنے شروع کئے۔ میرا لنڈ اکڑتا جا رہا تھا، میری اکلوتی بہن میرے کپڑے جسم سے الگ کر رہی تھی۔ قمیص اتارنے کے بعد میں ردا کی قمیص کے پیچھے ہاتھ ڈالا اور اس کی برا کا ہک کھول دیا۔ ردا نے شرماہٹ کے ساتھ کہا۔ شعیب پہلے قمیص تو اتارو۔ مین نے کہا میں تمہارے تنے ہوئے ممے کپڑوں کے اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ردا کی ممے قدرت کے حسین شاہکار میں سے ایک تھے۔ اس کی لائٹ پنک کلر کی قمیص سے اس کے دودھیا ابھار چھلک چھلک کر پاہر آرہے تھے۔ میں نے اب ردا کے بدن کے اوپری حصے پر موجود لباس کے نام واحد سہارا قمیص بھی اتار دی۔ اس کے گورے گورے بدن پر اس کے دودھیا ابھار قیامت تھے۔ میری بہن کا وہ بدن جس کو خیالات میں لاکر میں نے کئی بار مشت زنی کی تھی۔ اپنے لنڈ سے پانی نکالا تھا وہ حسین بدن آج میرے سامنے اوپر سے ننگا تھا۔ مجھ پر مستی چڑھ رہی تھی۔ میں نے پاگل پن میں آکر ردا اکے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئے اور پاگلوں کی طرح ان کو چومنے اور چوسنے لگا۔
جانے کتنی دیر تک ہم دونوں ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر ایک دوسرے کی ہوس کو بجھانے کی کوشش کرتے رہے مگر پیاس تھی کہ پڑھتی ہی جا رہی تھی۔ آپ لوگوں نے بہت عورتوں کے ساتھ بوس و کنار کیا ہوگا ان کی زبان چوسی ہوگی مگر میں اس وقت اپنی بہن کے منہ کا پانی چوس رہا تھا۔ اس کی گیلی زبان جب بھی میرے منہ سے ٹکراتی ایک عجیب سا جانور پن سا سوار ہو جاتا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ منہ کے راستے اس کے اندر تک گھس جاوں۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے کمر کو بستر کے ساتھ لگے سہارے سے لگا لیا۔ ردا بھی میرا اس کسنگ میں پوری طرح ساتھ دے دہی تھی۔ وہ بھی اپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹ کا نچلا حصہ دبا کے پوری طرح چوس رہی تھی۔ میرے اوپر شہوانیت پوری طرح چھاتی جا رہی تھی میں نے بھی اس بات کو زہن میں لائے بغیر کے جس بدن سے میں اپنی پیاس بجھا رہا ہوں وہ میری بہن کا ہے اس کے بدن سے چپکا ہوا تھا۔ ہم کو یاد تھا تو صرف یہ کہ ہم دونوں جوان بدنوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ میں نے آہستہ سے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی اور اپنی بہن کو فرنچ کس کرنے لگا۔ ہم دونوں کی سانسوں کی بھٹی ایک دوسرے سے ٹکرا کر ماحول کو اور لزت بھرا بنا دیتی میرے کسنگ کی آوازیں کمرے میں موجود شہوانیت کو بڑھا رہی تھیں۔ یہ شیطانی کھیل بہت دیر تک جاری رہا۔ ہم دونوں بہن بھائی شہوانیت کے نشے میں پوری طرح ڈوبے ہوئے تھے۔ نشے کے اس احساس میں میں نے ردا سے کہا کہ: ردا تم نے اس سے پہلے بھی چدوایا ہے نہ؟ ردا نے کہا: بھائی تمہاری بہن کا بدن بہت پیاسا ہے اس کی پیاس ایک مرد نہیں بجھا سکتا میں کئی مردوں کے ساتھ اپنی پیاس بجھا چکی ہوں اور دو سے تین مردوں کے ساتھ بیک وقت سیسک بھی کر چکی ہوں۔ میری بہن اپنے رکھیل پن کا اعلان کھلے عام کر رہی تھی۔ اس کا بھائی اپنی بہن کے شیطانی کرتوت سن رہا تھا اور مزہ لے رہا تھا۔ میں نے کہا ردا تم نے لنڈ تو چوسا ہی ہوگا۔
ردا نے مسحور کن آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور میری آنکھوں میں شامل مسکراہٹ اور ہوس نے ملے جلے جذبے کو پہچانے کے بعد اس کے چہرے پر بھی شرم اور حیا کے بادل چھا گئےبہت کوشش کے بعد اس کے منہ سے نکلا تو صرف یہ کہ: لائیٹ تو بند کر دو۔ مگر میں نے لائیٹ بند کئے بغیر اس کا اپنے اپنا اعضائے تناسل اس کے منہ کے پاس لے گیا۔ ردا کی سانسوں کی گرم آنچ اور اس کے ہونٹوں کی نرماہٹ مجھے پاگل کرنے کو کافی تھی۔ میں نے بیتاب ہوکر اپنا پورا ہتھیاراس کے ہونٹوں پر رکھ دیا اور اور ہلکے ہلکے سہلانے لگا۔ ردا نے اپنے ہونٹوں کو ہلاتی رہی اور کبھی کبھی ہلکے سے زبان نکال کر اعضائے تناسل کو چوس لیتی، اس کے لئے بھی اپنے بھائی کا لنڈ چوسنا نیا نیا تجربہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنا اوزار اس کے ہونٹوں سے ہٹایا اور دھیرے سے اس کے کان میں کہا : ردا آج پوری طرح بے تاب کرو نا، یہ سن کر ردا کے چہرے پر بھی ہوس اور مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے بے تاب ہو کر میرا ہتھیار کو جانوروں کی طرح چومنے لگی۔ پہلے پہل تو اس کا منہ ہلکے سے کھلا پھر اس نے آہستگی سے اپنی زبان کو گول کر کے میرے لنڈ کے اوپر پھیری۔ میری پیاس بڑھتی جا رہی تھی۔ ردا نے اپنا منہ ہلکے ہلکے سے کھول کر میرے اعضائے تناسل پر پیار کرتی اور اس کو جگہ جگہ سے گیلا کر رہی تھی۔ بے تابی کی انتہا پر میں نے اپنے لنڈ کا اوپر کا گول حصہ ردا کے منہ میں دے دیا۔ پہلے پہل اس وہ اس کو منہ میں لینے سے تھوڑا ہچکچائی مگر میری بےتابی کے آگے مجبور ہو گئے اور میرا ہتھیار اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے لگی۔ اور اپنی زبان کو نیچے کر کے وہ میرے لنڈ پر اپنا منہ آگے پیچھے کر رہی تھی۔ اپنی اکلوتی بہن کے منہ کی گیلے پن، گرمی اور بے تابی کا احساس میری نس نس میں سرور اور لذت بھر رہا تھا۔ میں اس احساس کے نشے میں پوری طرح ڈوب گیا تھا اور جنت، جہنم، گناہ، ثواب کے مفہوم سے آزاد میرا جسم صرف اور صرف اپنی اکلوتی بہن ردا کے جسم سے لذت کشد کرنے میں مصروف تھا۔ میرے لنڈ کا ذائقہ ردا کے منہ کو لگ چکا تھا اور وہ اس عمل سے مزا لینے میں مصروف تھی۔ میں نے اس کے بھی اپنے چوتڑوں کا ہلکا سا زور لگا کر اپنا لنڈ کو اس کے منہ کے اندر باہر کرنا شروع کیا۔ میرا لنڈ اس کے تھوک میں ڈوب رہا تھا اور ردا نے اپنا منہ کھول کر پوری طرح زور لگا رہی تھی۔ پاگل پن کا جذبہ اپنی آخری انتہا کو پہنچا ہوا تھا میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں: آہ، آہ آہ میری جان اور منہ کھول کہ چوسو نہ، میری جان بہت تڑپایا ہے اس وقت کے لئے چوس، اپنے منہ کا پورا پانی میرے لنڈ پر مل دو، اپنے بھائی کی پیاس کو بھجا دو اور مت تڑپاو آہ ہ ہ ہ ہہہہہہہہہہہہہہہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہہہہہہہہ اووووووووففففففف بہت مزا آرہا ہے ردا اور چوسو نا میری پری ہو تم میری جان ہو۔۔۔ اف ف ف ف فف ف ف جان ادا میری جان تمنا145145۔ میری منہ سے نکلتی آوازوں نے بھی ردا کو مذید جانور بنا دیا تھا اور ماحول مکمل طور پر جنس کے نشے میں ڈوب چکا تھا۔ اس وقت ہم بھائی بہن کا رشتہ جنس اور لذت کی پیاس میں ڈوب چکا تھا۔ ہم دونوں کو اس رشتہ سے کہیں بڑھ کر معلوم تھا تو یہ حقیقت کہ ہم دونوں جوان بدن ہیں جو ایک دوسرے کی پیاس کو بجھا سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے بدن سے کھیل سکتے ہیں، لذت حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے کپڑے اتار سکتے ہیں۔ ردا بھی اس کھیل کو کچھ کچھ سمجھ چکی تھی اور اس نے بھی اب اس کھیل کو پوری طرح کھیلنے کا فیصلہ کیا وہ اپنی زبان پوری طرح باھر نکالتی اور پھر میرے تنے ہوئے اوزار کو آئسکریم کی طرح چوستی۔ اس کی گیلی زبان میرے لنڈ سے ٹکرا کر مجھے عجیب طرح کی راحت دے رہی تھی۔ میرے لنڈ کے اوپری حصہ بہت سخت ہو رہا تھا وہ اسے چوستی تو میرے پورے بدن میں کرنٹ دوڑتا میں بھی بت تاب ہوکر اس کے بالوں میں انگلیاں بھیر رہا تھا اور اس کے سر پر دباو ڈال رہا تھا۔ میری بہن کے دودھیا ابھار پیار کی مستی میں ہلکے ہلکے سے ہل رہے تھے اور اس کے منہ سے پچ پچپ پچپ پ چ پچ پچ جیسی دبی دبی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ میرا آدھا لنڈ ردا کے منہ میں اتر چکا تھا اور اس کے منہ کے پانی میں گیلا ہو رہا تھا۔ ردا کے بالوں میں ہیر بینڈ تھا جو میں نے اتر دیا اب اس کے کندھے تک کے بال اس کے گورے حسین بدن پر بکھر گئے تھے میں نے ردا کو کہا ردا اپنی زبان میرے پورے لنڈ پر بھیرو نا۔ یہ سن کر ردا کی مستی بھری آنکھوں میں ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے کہا : اللہ میرا بھیا پیاسا ہو رہا ہے اپنی بہن کے لئے145145 اور اس نے لنڈ کو منہ سے نکالا اور پورے پر اپنی زبان کو آہستگی سے پھیرنے لگی۔۔ اف ف ف ف کیا بتاوں اس وقت جذبات کس عروج پر تھے میں اپنی بہن کے پیار کے نشہ میں پوری طرح ڈوب چکا تھا۔ اس نے ایک ہوتھ سے ہلکے سے میرے لنڈ کے نیچے خصیوں کو ہلاتی اور اوپر سے میرے لنڈ پر اپنا تھوک لگاتی۔ شدت پیار میں میں نے لنڈ اس کے منہ کے اندر دوبارہ ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگا۔ ردا کی آنکھیں بھی مارے مستی کے بند ہو رہی تھیں۔ وہ ماحول ہی اتنا مسحور کن تھا کہ بس۔۔ ہلکی ہلکی روشنی میں دنیا کی سب سے حسین عورت جو آپ کی بہن ہو آپ کے لنڈ سے کھیل رہی ہو اور آپ دونوں کے بدن کپڑوں کی قید سے پوری طرح آزاد ہوں تو کیسا لگے گا۔ تھوڑی دیر ردا نے ایک اور شرارت شروع کی وہ میرے لنڈ کو تھوڑا سا اندر لیتی اور بھر باہر نکالتے ہوئے اس پر اپنے دانت ہلکے سے لگاتی اسطرح اندر جاتے ہوئے اپنے منہ میں تھوک کو زبان پر لاتی اور میرے لنڈ پر مل دیتی۔ اس شرارت اور چھیڑ چھاڑ کے عمل پر میں پاگل ہو جاتا اور بے بس ہوکر اس اپنے دھکے اس کے منہ کے اندر مذید تیز کر دیتا۔ میرا ہاتھ ردا کے بیضوی ابھاروں پر تھا جو اخروٹ کی طرح باہر سے سخت اور اندر سے مکمل نرم تھے۔ میں نے بے تابی میں اس کے ابھاروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی اور اس کے خوبصورت مخروطی ابھاروں کو دبانے لگا۔ اب چھیڑ چھاڑ کے اس عمل میں ردا بھی نشانہ بن رہی تھی اس کے منہ سے بھی سسکاروں کا طوفان نکل رہا تھا: اف ف ف ف ف ف ف اللہ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔ اوچ چ چ چ چ آرام سے دباو شعیب ب ب آہ ہ میری جان ن ن میرے بدن ن ن سے کھیلو میں تمہاری ہوں، میں تمہاری پری ہوں آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اوف ف ف ف ف اپنی جانو کے ساتھ آرام سے کھیلو نہ۔۔ آہ ہ ہ شعیب میرے یار تمہاری لئے بنی ہوں میں، میرا بدن تمہارے لیے بنا ہے اس کو اور پیار ر ر ر کرو نا میری جان۔۔ میرے یہ دو خبصورت ابھار تمہارے لئے تحفہ ہیں ان کو ہہلکے ہلکے دباو و و و و و۔ اللہ تم کتنا مزہ دیتے ہو میری پیاس بجھاو نہ۔ میں بھی ان آوازوں اور سسکاروں کے نشے میں اپنی بہن کے جسم سے کھیل رہا تھا۔ میرے لنڈ کو اس اس کے منہ میں اتنی راحت مل رہی تھہ کہ وہ اب باہر نکلنا ہی نہیں چاہتا تھا مگر سیکس کا عمل جب تک دو طرفہ نہ ہو مزہ نہیں آتا۔ میں نے یہ ذہن بنا کر تھوڑی دیر تو اپنا لنڈ ردا کے اندر باہر کیا پھر میں نے اپنا لنڈ نکال کر تیزی سے اس کے ہونٹوں کو چومنا شروع کیا۔ میرے لنڈ کا ذائقی ابھی تک میری بہن کے ہونٹوں پر تھا جس کو میں چوس رہا تھا۔ میرے لنڈ کی لذت اور اس کے مستی بھری جوانی میں وہ بھی لنڈ چوسنے کی مشقت سے تھوڑا تھک چکی تھی اس نے بھی میرے ہونٹوں کو کس کے چومنا شروع کیا اور اب صورتحال یہ تھہ کہ میں نے اس کو نچلا ہونٹ بپا کر خوب چوس رہا تھا یہاں تک کہ ہمارے منہ سے آوازیں بھی نکل رہی تھیں۔ کیونکہ گھر میں کوئی تھا نہیں اس لئے ہم کو کسی کا ڈر نہیں تھا۔ میرے بدن میں ہلکی ہلکی راحت کے ساتھ کرنٹ سا دوڑ رہا تھا۔ میری بانیوں میں کوئی اور نہیں میری اپنی بہن ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنی پیاس بھجا رہے ہیں یہ احساس ہی انتہائی مسرور کن تھا۔ میرے دونوں کے بدن ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ردا میرے سینے سے الگ ہوئی اور میرے بدن کی قمیض کو ہلکے سے اتارا اب میرے سینہ ایک دم برہنہ ردا کے سامنے تھا ردا نے اس پر ہلکے سے اپنے ہونٹ رکھے مگر اس کے بھائی کی ہوس ایک ہونٹ کے بوسے سے کیسے بجھ سکتی تھی۔ مجھے تو ردا کو بھرپور پیار چاہیے تھا اور ردا کی مست جوانی بھی مجھ پر ٹوٹ کر برسنے کو تیار تھی۔ ردا نے میرے ننگے سینے پر اپنے ہونٹوں کے بوسوں کی برسات کر دی وہ میرا بالوں بھرا سینہ کو چوم رہی تھی اور کبھی کبھی جھک کر میرے پیٹ کو بھی چاٹ لیتی۔ میری سانسیں بہت تیز ہو چکی تھیں۔ اور میں بار بار کہہ رہا تھا: اوچ چ چ چ چ چ آ ہ ہ ہ ردا مار ڈالا۔۔ اور چوسو اپنے بھائی کا۔۔ رنڈی بنو اپنے بھائی کی۔۔ اور رنڈی بنو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ اوووووووووووووووو اور پیار کرو۔۔ میں پیاسا ہوں تمہارا ردا۔۔۔۔ ردا پر بھی یہ جملے سن کر مستی چڑھتی جا رہی تھی اور اب اس نے میرے سینے کے بالوں کو اہنے منہ میں لے کر چوشنا شروع کر دیا اور اپنی زبان باہر نکال کر میرے سینے پر پھیرنے لگی۔ اس نے میرے سینے کے بیچ زبان کیا پھیری کہ میں باگل ہو گیا۔ میرا ہاتھ ردا کے بالوں پر تھا اور میں اسے ہلکے ہلکے کھینچ رہا تھا جس سے اس کو پیار بھری لذت ہوتی۔ ردا کا شباب بھرا بدن میرے ننگے سینے میں گھسا ہوا تھا۔ اور میں اس کے بال سھلا رہا تھا۔۔ لذت کے مارے میں نے ردا کے بالوں کو اوپر کھینچا اور اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔ میں اس کے بالوں کو کھینچ کر اس کا چہرہ اٹھایا اور اس کی صراحی دار گردن کو بری طرح چوم رہا تھا۔ اب میں نے ردا کو بیتاب کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ ردا کے منہ سے آوازوں کا طوفان نکل رہا تھا۔۔ اس کے جملے ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے ہی منہ میں گم ہو رہے تھے۔۔ ا ف ف ف ف ف ف ف بھائی کککیاا۔۔ آہ ہ ہہ ہ ہ ہ ہ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ الل۔۔۔۔۔ۃ ۃہاہاہاہاہاہاہااوووووووووووووووووووو اف ف ف ف ف ف ف ف ف ف چععییبببب۔۔ ؤہ چودددددوووو نا اور پیارررررر کرو نہہہہ۔۔۔ آہہہہہ۔۔۔۔ اس کی آواذوں کا طوفان مجھے پاگل کر رہا تھا اب میں نے بیتاب ہوکر اس کی گردن پر نشان بنانے لگا۔ مین اس کی گردن کے نرم حصے کو منہ میں لیتا اور اپنے دونوں ہونٹوں میں دبا کر اندر تک کھینچتا اور پھر اس کھال کے حصے پر اپنے دانت گاڑ دیتا۔۔ میں نے ردا کی پوری گردن پر اس طرح اپنے دانٹ گاڑ دیتا کہ وہ بت بس ہو جاتی۔ ردا کو اپنے بھائی کی ہوس کا یہ کھیل بہت پسند آرہا تھا اس کے منہ سے نکلنے والی سسکاریوں کا طوفان اس بات کا ثبوت تھا۔ میں کافی دیر تک اپنی بہن کی گردن کو چاٹتا رہا اور پھر میں نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر الگ کیا اور اس کی نظروں میں جھانکا۔ اس کی نظروں میں میرے لئے بے پناہ پیار تھا۔ وہی پیار جو ایک جوان عورت کا بدن ایک جوان مرد سے چاہتا ہے۔۔ ہم دونوں ہوس کے طوفان میں بہہ نکلے تھے۔ ردا کے گلابی ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اب میں ہلکے ہلکے نیچے بیٹھا اور ردا کی شلوار اتار دی۔ ردا نے شرماہٹ میں کہا جانو اپنے بھی تو کپڑے اتارو۔ میں نے کہا کہ تمہارے کپڑے اتارے کی مشق میں نے کہ ہے میرے کپڑے تم اتارو۔ ردا یہ سن کر بہت ہنسی اور میری بیلٹ کا ہک کھولا اور میری پینٹ کو اس طرح اتارا کہ میرا انڈر ویر بھی ساتھ اترتا گیا۔ میں نے اس کے ساتھ ہی ردا کو بستر پر ہلکا سا دھکا دے دیا۔   

Friday 26 October 2012

میری بہن حصہ دوئم

ہم دونوں بہن بھائی پڑھائی کے معاملے میں خاصے ذھین واقع ہوئے تھے اور امتحانات میں ھمیشہ امتیازی نمبروں سے کامباب ہوتے۔ ہماری انہی کامیابوں کی بدولت امی ابو ہم سے کم ہی ناراض ہوتے یا کوئی سختی کرتے تھے ابو تو گھر میں ہی بہت کم آتے تھے زیادہ تر اپنی فوجی نوعیت کی میٹنگز میں مصروف رہتے امی بھی ڈاکٹری کے شعبہ میں مصروف عمل تھیں اور گھر رات گئے تک آتیں تھیں۔ گھر میں موجود خانساماں سارا کام کرتی اور صفائی ستھرائی بھی نوکر چاکر ہی کیا کرتے تھے۔ امی کا ایک اصول تھا کہ بچوں کو اتنا پیسہ اور کانفڈنس دو کہ وہ اپنے ہر معاملات میں خود کفیل ہو سکیں۔ اور یہی معاملہ ہم بہن بھائیوں کے ساتھ تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے اور درا نے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا اب بچپن کے بہت سے سوالوں کا جواب ملنا شروع ہو گیا تھا۔ انٹرنیٹ کی آمد آمد تھی تو پڑھائی کے بعد میں زیادی تر وقت نیٹ پر گزارتا اور جنسی کہانیوں پر مبنی وئب سائٹ دیکھتا یا کوئی گندی فلم لگا لیتا۔ سیکس کے سارے معنی میں نے انٹرنیٹ سے سیکھے۔ یہ نہیں تھا کہ مجھ میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کی امنگ نہیں تھی۔ کلاس میں پڑھائی میں آگے ہونے کی بدولت لڑکے لڑکیاں دونوں ہی مجھ سے دوستی کرنا چاہتے تھے مگر میرا دماغ ان چیزوں سے آزاد اپنا کیرئر بنانے میں مصروف تھا۔ میں اس چیزوں کو لذت کی حد تک تو صیح سمجھتا تاہم اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا تھا۔ ردا میں ایک تبدیلی جو میں نے نوٹ کی وہ اس کے ٹام بوائے والے امیج سے لڑکی بننا تھا۔ وہ اپنی نیل پالش سے لے کر جیولری اور کپڑے تک خود پسند کرتی تھی اور اس کی الماری جدید قسم کے جوتوں، کپڑوں اور پرفیوم سے بھری ہوتی تھیں۔ موبائل فون کے آنے سے وہ دن رات فون پر بھی لگی رہتی۔ ایک اور تبدیلی جو میں نے اس میں محسوس کی وہ اس کے جسم کے مخصوص اعضا کی نشونما تھی۔ ردا اب دوستوں کے ساتھ بھی لانگ ڈرائیو اور پارٹیوں میں جانے لگی۔ امی کو ردا کا پڑھنا تو پسند تھا تاہم اس کی یہ حرکتیں امی کی برداشت سے باہر تھیں اور امی گاہے بگاہے اس کو ڈانٹتی رہتی تھیں۔ ردا عمر کے اس حصے میں تھی جہاں اس کو یہ ڈانٹ بہت بری لگتی تھی اور آہستی آہستہ وہ امی سے بد زن ہوتی گئی۔ اس کے برعکس امی کا رویہ میرے ساتھ بے حد اچھا تھا اور وہ اپنے کولیگ اور دوستوں کے سامنے اکثر کہتیں کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ جب امی یہ کہتیں تو ردا کی آنکھوں میں چھپی نفرت میں اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا۔


ردا نسوانی جوانی کا بھر پور شاہکار تھی۔ میں نے اس کے بدن کی کبھی پیمائش تو نہیں کی تھی تاہم اتنا جانتا تھا کہ بازار میں یا یونیورسٹی میں بہت سے لوگ اس کے بدن کے اندر اپنی نظریں گاڑتے ہیں اور اپنی ہوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کچھ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔ اس کا قد تو پانچ فٹ سے تھوڑا اونچا ہوگا مگر اس کے بدن کے دیگر حصے اپنے شباب پر تھے۔ میں عورتوں کے فگر ناپنے کر معاملے میں انتہائی کورا واقع ہوا ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ عورتوں کے بدن کی پیمائش کے جو استعارات عام زندگی میں استعمال ہوتے ہیں وہ سب ردا کے بدن پر فٹ آتے تھے۔ صراحی دار گردن، قندھاری انار جیسے رس بھرے ہونٹ، تربوز جیسے چوتڑ، چونسا آم کی مانند مخروطی ابھار، اندام نہانی ایسے ہوگی (خیالات کی حد تک) کہ لوکی کا اوپری حصہ آرام سے اندر چلا جائے۔ بہت دفعہ اس کے پیروں کو دیکھ کر میں نے مشت زنی کی ہے۔ اس کا گورا رنگ اس کی خوبصورتی تھا۔ گندم کے خمار کی طرح اس کے بابت مستی بھری جوانی کا خمار کا احساس بھی تڑپ اور لطیف جذبات پر مشتمل تھا۔ ردا کی خوبصورتی اس کے چلنے کے انداز سے پہچانی جا سکتی تھی۔ فیشن ایبل تو وہ بچپن سے تھی اور اس پر یہ انداز قیامت ڈھاتا تھا ایک تو چلتے وقت اس وہ بظاہر دنیا سے بے پرواہ ہوکر چلتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے لاشعور میں یہ بات ہوتی تھی کہ وہ بے حد حسین ہے۔۔ اس کا جسم عربی کہاوت کے بقول عورت کی خوبصورتی اس کے جسم پر چادر ڈال دو بھر جہاں جو ابھار زیادہ نظر آئے وہ عورت کی خوبصورتی ہے، کی مانند تھا۔ بازار یا یو نیورسٹی میں وہ اونچی ہیل والئ چپل کا استعمال کرتی اور سینہ اکڑ کے چلتی تھی۔ اس کے مخروطی ابھاروں کی نرماٰہٹ اس کے سینے کی اکڑاہٹ سے میل نہ کھاتے اور سینے اور مخروطی ابھاروں کی اکڑاہٹ کی لڑائی سے اس کے ابھار ہلکے ہلکے ہلتے اور بعض اوقات یہ مخروطی ابھار قمیض کے اوپر اپنی لائن بھی بناتے۔ ابھاروں کی یہ نرماہٹ کسی بھی ذی ہوش انسان کو پاگل کرنے کے لئے کافی تھی۔ ردا کے جسم کا پچھلا حصہ بھی لاجواب تھا۔ اور چلتے وقت ہلکا ہلکا ہلتا اور دیکھنے والوں کو دیوانہ بنا دیتا۔ بٓر ہونے کے بعد اس نے بھی اپنے جسم کی اس خوبصورتی کو محسوس کیا اور اپنے لباس میں جان کر تنگ قمیص اور شلواروں میں پٹیالہ کٹ یا تھوڑے تنگ پاجامے بنانے لگی اور اکثر یہ پاجامے اتنے تنگ ہوتے کہ ان کے درمیان کپڑا پھنس کے ان کی خوبصورتی مزید واضح ہو جاتی۔ غرور، ادا، انا، حسن اور معصومیت کے اس امتزاج نے درا کے جسم میں بچپن سے ہی ایک بھر پور عورت پیدا کر دی تھی۔ میری بہن ردا کے بدن کا حق ادا کرنا بہت مشکل تھا۔ سڑکوں محلوں میں چھیڑنا، ہاتھ لگانا یا کمنٹس پاس کرنا تو آسان تھا مگر اندر کی بھر پور عورت کی پیاس بجھانا ایسا تھا بہت مشکل تھا۔ میرے ذہن میں اس کو چلتے دیکھ کر ایک ہی خیال آتا کیا میں اس بدن کو بھرپور طریقے سے بانیوں میں بھر سکتا ہوں۔ یہ خیالات اور ردا کا انداز مجھے پاگل کر دیتے میں اپنی بہن کا بدن جانہوں میں بھرنے کو بیتاب تھا۔ جہاں جہاں یہ بدن کھلا ہوتا (مثلاَ بڑے گلے پہنتے وقت گردن یا سینے پر، بازو پر یا پیر) میرا دل چاہتا تھا کہ ایک اپنا منہ اس جگہ پر رکھ کر سارے دانت اس بدن میں اتر دوں اور ردا کی مستی بھری سسکاری سنوں

۔
آدھی رات کے وقت ہوگا کہ مجھے اپنے سینے پر کسی کے وجود کا احساس ہوا۔ میں نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہیں دی پھر بعد میں مجھے لگا کہ کوئی میرا نام لے ریا ہے میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو سامنے ردا تھی پہلے پہل تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تاہم بعد میں میں نے آنکھیں کھولیں اور نیند میں کہاکہ کیاہے۔ ردا نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اٹھایا اور چپکے سے اپنے ساتھ آنے کو کہا میں نیند اور ڈر کے احساس کے ساتھ اس کے ساتھ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ مجھے امی کے کمرے تک لے آئی اور اپنے ہونٹوں پر خاموشی کا اشارہ کیا اور مجھ سے کھڑکی کے زریعے امی کے کمرے میں جھانکنے کا کہا۔ میں نے امی کے کمرے میں جھانکا تو ایک شدید قسم کا جھٹکا لگا نائیٹ بلب کی روشنی میں امی کپڑوں سے آزاد ڈاکٹراحمدکے قدموں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ان کا اعضائے تناسل کو چوس رہی ہیں۔ اور نہ صرف چوس رہی ہیں بلکہ اتنی زور سے کہ ان کی آوازیں کمرے سے باہر تک آرہی تھیں۔ ڈاکٹر احمد جو امی کے دوستوں میں سے ہیں لذت کے مارے امی کہ منی میں لنڈ کو اندر پاہر کرتے ہوئے سسکاریاں بھر رہے تھے اور امی کو کہہ رہے تھے سلمہ اور چوسو۔۔۔آہ ہ ہ ہ اوووووووفف ف ف ف ف ف ف فسلمہ مار ڈالا تم نے تو۔ امی کا جسم آگے پیچھے ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا اور انکے منہ میں احمد انکل کا لنڈ پوری طرح اندر تک چلا جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر میری ٹانگوں سے جان نکل گئی۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھلا۔ ردا نے مجھ سے کہا کہ شعیب یہ بار مجھے بہت دنوں سے پتا ہے مگر میں کسی کو بتاتی نہ تھی۔ احمد انکل رات امی کے ساتھ ہی گزارتے ہیں اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے۔ میں نے بھی اس منظر کو اپنے ذہن سے نکال دیا اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ مگر اس واقع کا اثر یہ ہوا کہ ہم دونوں بہن بھائی گھر کے معاملات سے لا تعلق ہو گئے اور ایک روایتی گھر کے ماحول کی قید سے آذاد ہو گئے۔ اور یہ عمل آگے چل کے بنیاد بنا میرے اور ردا کے درمیان ایک الگ قسم کے رشتے کی۔


زندگی اسی طرح آگے بڑھتی گئی اور میں اور ردا یونیورسٹی میں آگئے۔میری دلچسپی آرٹس اور سماجیات کے موضوعات میں تھی تو میں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں داخلہ لیا۔ امی اس چیز کے بہت خلاف تھیں ان کے خیال میں مجھے ڈاکٹر یا بزنس اسٹڈیز میں داخلہ لینا چاہیے تھا۔ مگر میری سمجھ میں سوشل سائنسس کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔ اے لیول میں بھی میری انھی موضوعات پر گرفت تھی جو سماجیات کے دائدے میں آتے تھے ان میں نفسیات، عمرانیات، ابلاغیات، انٹرنیشنل ریلیشنز شامل تھے۔ ردا نے امی کی خواہشات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا اور ڈاکٹر بنے لگی۔



ردا کے اندر اب خاصی تبدیلی آگئی تھی وہ بہت چست کپڑے پہنتی اور چلنے کے انداز میں بھی ایک خاص قسم کی لوچ آگئی تھی۔ میں نے اپنی بہن کی آنکھوں میں اس جوانی کی مستی کو محسوس کر سکتا تھا جو ہر جوان اور بالغ لڑکی کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ نفسیات کا تو میں پہلے ہی سے اسٹوڈنٹ تھا اور ردا کا بھی پہلے سال نفسیات کا موضوع تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اس ٹاپک پر گھنٹوں بات کرتے۔ میرے دماغ میں بھی اب ایک منصوبہ آرہا تھا جس کی بدولت میں ردا کے حسین بدن تک رسائی کر سکتا۔ اور ردا بھی کوئی دودھ کی دہلی نہ تھی اس کے ایک نہیں کئی معاشقے چل رہے تھے اور وہ ڈیٹ پر بھی جانے لگی تھی۔ میرا دماغ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ جس بدن سے باہر والے لذت کشد کر رہے ہیں وہ میری بانہوں میں آجائے تو کیا بات ہے۔ میری آنکھوں میں اپنی بہن کے لئے ہوس ٹپکتی تھی۔ جب بھی ہمارا سامنا ہوتا تو میں نظروں نظروں میں پیغام دینے کی کوشش کرتا۔ اب دو ہی باتیں تھیں یا تو وہ اس پیغام کو سجھتی نہ تھی اور واقعی معصوم تھی۔ یا جان بوجھ کر انجان بن جاتی۔ مگر میں اتنی دفعہ اس کو غیر لڑکوں کے ساتھ جاتے اور آتے دیکھ چکا تھا کہ میرا دل نہیں مانتا تھا کہ وہ معصوم ہے اور کبھی کبھی اس کے ہونٹ اور صاف و شفاف بدن پر دانتوں کے نشان دیکھ کر تو اور بھی یقین ہو جاتا کہ وہ لڑکوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ آنکھوں آنکھوں میں تو اس کو بہت دفعہ پیغام دے چکا تھا مگر کوئی بات نہیں بنی۔ اس کی نگاہوں میں مستی اور شرارت تو ہوتی مگر اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ میں ورزش کرتے ہوئے اپنی قمیض اتار دیتا تو وہ میرے کسے ہوئے بدن کو پیاسی نظروں سے دیکھا کرتی تھی مگر کچھ کہتی نہیں۔ میں سمجھ چکا تھا کہ وہ تیار ہے پر پہل مجھے کرنی ہوگی۔ مگر کیسے؟ پھر میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور اس کو میں نے عملی جامہ پہنانے کا سوچا۔ نفسیات میرا اور اس کا پسندیدہ موضوع تھا اور مجھے آغاز وہیں سے کرنا تھا۔
ایک روز میں نے نفسیات پر بات کرتے ہوئے ازاہ مذاق ردا سے پوچھا ردا تمہیں پتا ہے اس پورے سماج کے سارے مسئلے کہاں سے شروع ہوتے ہیں ردا نے نفی میں سر ہلایا میں نے کہا کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان کے سارے مسائل پیٹ اور اس کے نیچے گھومتے ہیں۔ ردا کا چہرہ سرخ ہو گیا اس کو امید نہیں تھی کہ میں اتنی بڑی بات اچانک کہہ دوں گا۔ مجھے بھی اس کا احساس ہوا میں نے فورا بات کو بنایا اور کہا کہ میں ساینسدانوں کی کہی ہوئی بات کر رہا تھا۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔ ردا نے کہا ہاں مین سمجھتہ ہوں کہ انسان کے مسائل اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ صرف یہی بات اس کا سبب نہیں ہو سکتی۔ ردا کو گفتگو میں حصہ لیتا دیکھ کر میں نے بھی ہمت پکڑی اور کہا کہ میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ سارے مسائل نہیں بلکہ زیادہ تر مسائل۔ اچھا بتاو تم نے سگمنڈ فرائیڈ کو پڑھا ہے۔ درا نے کہا کہ ہاں بھائی وہ تو ہمارے کورس کا حصہ ہے۔ میں نے کہا کہ سگمنڈ فرائیڈ کو کورس نہیں معلومات کے لئے پڑھو تو فائدہ ہوگا۔ آگے کا مکالمہ درج ذیل ہے:



ردا: شعیب میں سمجھتی ہوں کہ فرائیڈ نے زندگی کے ایک ہی نظریہ کو زیادہ بڑا کر کے دکھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف جنسیات ہی زندگی کا زاویہ طر نہیں کرتی۔ اس کے کچھ اور پیمانے بھی ہوتے ہونگے۔

(میرے ذہن مٰں اس وقت ایک پلان چل رہا تھا اور میرا شیطانی دماغ پوری طرح اپنی بہن کے نشے میں کھویا ہوا تھا)

میں: ہاں ردا تم صیح کہتی ہو مگر فرائیڈ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ زندگی کا محور جنسیات میں ہے مگر یہ بہت اہم چیز ہے اور اگر سماج اور فرد اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو خاصے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

ردا: مگر شعیب فرائیڈ نے تو اور کچھ بھی ایسا کہا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔

میں؛ مثلاَ

ردا: بھائی تم جانتے ہو کہ میں کیا بول کر رہی ہوں۔

میں نے قدرے انجان بنتے ہوئے کہا: ہاں مجھے پتا ہے مگر تم اپنے منہ سے کہو تاکہ کو ابہام نہ رہے اور پلیز مجھ سے کیسی شرم میں تو تمہارا ڈیر بھائی ہوں اور ہم دونوں سائنس کے اسٹوڈنٹ۔ تو ہم جو گفتگو کریں گے وہ معلومات کی غرض سے کریں گے۔ اس میں کیسی شرم۔

ایک ہی سانس میں میں نے ردا کا اعتماد جیت لیا اور اس کے اندر کی جھجک کو مٹانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اب تھوڑے سی محنت کے بعد ردا میری رنڈی بن سکتی تھی۔

ردا نے اب قدرے اعتماد سے کہا: ردا نے کہا کہ فرائیڈ نے تو یہ بھی کہا تھا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی جنسیاتی عمل میں حصہ لینا شروع کر دیتا ہے اور ماں کی چھاتیاں اس کا پہلا شکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں اپنے باپ میں جنسی کشش مضسوس کرتی ہیں۔

میں: ہاں تو اس میں کیا غلط ہے اس نے یہ بات صیح یا غلط کے تباظر میں نہیں کہی بلکہ ایک حقیقت بتائی ہے۔ تم مجھے بتاو کہ کیا ایسا نہیں ہے۔ سب چھوڑو اس گھر کی ہی مثال لے لو۔ میں آٹھویں کلاس تک امی کے ساتھ سویا۔ اور ان سے چپک کر سونے میں مجھے مزا آتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ رویہ کیا ہے مگر ایک کشش تھی جو امی میں محسوس ہوتی تھی۔ کیا تم ابو میں یہ کشش محسوس نہیں کرتی تھیں۔

ردا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اب میرا منصوبہ کامیابی کے بہت نزدیک تھا۔ ردا کی آنکھوں میں بھی ایک خاص قسم کی شرماہٹ اور حرامی پن کے ملے جلے احساس آرہے تھے۔

میں نے کہا: ردا میں سماجیات کا طالب علم ہوں اور معاشرے کی سائنس یہ کہتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی اصول جامد نہیں ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ تم کو پتا ہے کہ رومن دور میں دنیا کی ّبادی کے بھنے کی کیا وجہ تھی؟ میں نے ردا سے دریافت کیا۔
ردا نے جانتے یا نہ جانتے ہوئے بھی نہیں میں سر ہلایا

میں نے کہا کیونکہ اس زمانے میں ماں باپ، بہن بھائی، چچا بھتیجی، غرض کسی قسم کے رشتوں میں جنسیاتی تعلق کی کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ بہن بھائی آگے چل کر میاں بیوی بنتے۔ اور تو اور ماں یا باپ بھی اپنے بچوں سے سیکس کیا کرتے تھے۔

میں نے ایک ہی سانس میں یہ کہہ تو دیا مگر میں ردا کا رد عمل جاننے کے لئے بیتاب تھا میں نے ردا کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ بھی کسی حد تک اس گفتگو کا موضوع سمجھ چکی تھی۔
ردا نے کہا۔ مگر یہ تو اصولوں کے خلاف بات ہوئی نا؟

میں: وہ کیسے؟ تم جانتی ہو کہ معاشرہ کسی جامد شے کا نام نہیں یہاں کی اخلاقیات اور فلسفہ انسان طے کرتے ہیں۔ اچھا تم کہتی ہو کہ یہ خلاف اصول ہے۔ اصول کون طے کرتا ہے؟ ہم یا قدرت؟ اگر ہم انسان طے نہیں کرتے تو قدرت ہی کرتی ہوگی۔ ظاہر سی بات ہے۔ اور مجھے ایک بات بتاو کہ ہم میں اور جانوروں میں قدرت کے نزدیک کون ہوتا ہے؟ جانور؟ میں نے دریافت کیا۔ تو اگر ماں باپ ، بہن بھائی اور سگے رشتہ داروں میں یہ فعل خلاف قدرت ہے تو یہ جانوروں میں کیوں پایا جاتا ہے جو ہم سے زیادہ قدرت کے نذدیک ہیں۔ وہ کیوں ان رشتوں کو بھلا کر ایک دوسرے پر چڑھ جاتے ہیں اور اپنی جنسی خاہشات کو پورا کرتے ہیں۔ کیا ہم انسان ایسا نہیں کر سکتے۔

اکتوبر کا مہینہ تھا اورموسم میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ کراچی میں ان دنوں موسم خشک ہوتا ہے۔ میرے اندر کا ڈر اپنے آپ کو ظاہر تع کر رہا تھا مگر میرے اندر کے جنسی جانور نے ردا کو چودنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ ردا کا بدن مجھ کو بیتاب کر رہا تھا۔ اس کے ہونٹ ہلکے ہلکے خشک تھے اور جسم تھوڑا بھرا ہوا باتوں کی شدت سے اس کا منہ ہلکا ہلکا سرخ ہو رہا تھا۔ میں ردا کو اس نقطہ پر لے آیا تھا کہ وہ پوری طرح زہنی طور پر تیار ہو چکی تھی بس ایک موقع کی کمی تھی۔ اب میں نے اس گفتگو کو ذاتیات پر اتارنا شروع کیا۔
میں نے کہا کہ ردا اور یہ سب ہمارے شعور اور لاشعور کی جنگ ہے۔ یہ جذبہ ہر ایک کے لاشعور میں ہوتا ہے بس کمی ہے تو اس کو شعور میں لانے کی۔ تم کو یاد ہے ہم نے بچپن میں امی کو ننگا دیکھا تھا انکل احمد کے ساتھ۔ وہ ان کا چوس رہیں تھیں۔ یاد ہے نہ تم کو؟
درا نے ہاں میں سر ہلایا۔
میں نے کہا ردا تم کو پتا ہے اس واقعی کے بعد میں نے ایک عرصہ تک یہ منظر سوچ سوچ کر مشت زنی کی تھی اور خوابوں میں کئی بار امی کو ننگا دیکھا تھا۔ ایسے خواب جس میں امی ایک دم ننگا ہوکر میرا لنڈ اوپر سے نیچے تک چوستیں۔
ردا کی سانسوں کی آنچ تیز ہونی شروع ہوگئی تھی اور میں جان کے ایسے الباظ استعمال کرتا جس سے اس جنسی جذبات بھڑک اٹھتے اور ماحول اور گرم ہو جاتا اور میری بہن تو تھی ہی آگ کا الاو بس ایک ماچس جلا کر اس الاو کو روشن کرنا تھا اور پھر اس کی شدت میں جسم کو جلانا تھا۔ اب میں نے اپنا آخری داو چلا۔
میں نے کہا ردا تم کو یاد ہے کہ ہم بچپن میں ایک ساتھ نہایا کرتے تھے۔ یہ سب ہمارے درمیان جنسی جذبات کی نشانی نہیں تو کیا تھا۔ اور میں بتاوں تم امی اور انکل احمد کے جنسی تعلقات کو بہت پہلے سے جانتی تھیں مگر تم نے اسی وقت مجھے بتایا جب امی نے ہم دونوں کو نہاتے ہوئے پکڑا۔ یہ ایک طریقے سے تم نے امی سے انتقام لیا تھا۔ بولو کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔
ردا کے پاس ہاں کہنے کو علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اب میں ردا کے نزدیک ہوا اور کہا کہ ردا سچ بتاو بچپن میں مزا نہیں آتا تھا ایک ساتھ نہانے میں۔ دل نہین چاہتا ایسا دوبارہ کرنے کو۔ یہ کہتے کہتے میں ردا کے گرم بدن کے بہت نزدیک آچکا تھا۔

ردا نے کہا کہ بھائی کیا کر رہے ہو۔ مگر ساتھ ساتھ کہا کہ ہاں آتا تھا۔ مارے شرم کے اس کی گردن جھک چکی تھی۔ برسوں سے جاری شرافت کا کھیل ختم ہونے کے نزدیک تھا اور میری بہن کا گرم بدن میری بانہوں میں آنے والا تھا
میں نے کہا: ردا تمہارا بدن بہت سندر ہے اس کو اپنے بھائی کی بانہوں میں نہیں دو گی۔

Thursday 25 October 2012

میری بہن



(اس کہانی میں واقعات اور نام فرضی ہیں)

میں کراچی کے علاقے میں رہنے والا لاکھوں اور کڑوڑوں لوگوں میں سے ایک ہوں مگر ٹھیرئے میری پہچان صرف کراچی کا باسی ہونا ہی نہیں بلکہ اس معاشرے کا رکن کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے جو اپنی ہر خواہش مذہب، سماج اور معاشرے کے دوغلے رویوں میں چھپاتے ہیں۔ ان خواہشات میں ایک منہ زور جذبہ جنسی خواہشات کا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں جاوں گا کہ یہ معاشرہ اس جذبے سے اتنا انکاری کیوں ہے مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جنسیات سے انکار زندگی سے انکار کے مترادف ہے۔ آپ اس ملک میں کہیں بھی کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں چاہے وہ کھیلوں کا میدان ہو، گلی ہو، پان کی دکان، جنگ کا میدان، گھر، دوستوں یا احباب کی گفتگو آپ سیکس کا موضوع ہر جگہ پائیں گے۔ مگر یہ بات کہہ کر آگےبڑھتے ہیں کہ میں اور آپ جس معاشرے کے نمائیندہ ہیں وہاں زندگی ممنوع ہے اور خواہشات اجتماعی سوچ کی غلام۔


بہر حال اپنے بارے میں بتاتا چلوں، میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور ہم دو بہن بھائی ہیں۔ میری امی اور ابو دونوں ہی ملازم پیشہ ہیں میرے ابو تو آرمی میں ہیں تو وہ اکثر اوقات شہر سے باہر ہی ہوتے ہیں۔ امی پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ ابو پنجابی اسپیکنگ اور امی اردو اسپیکنگ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امی ابو کوئی مثالی میاں بیوی نہیں ہیں تاہم ہم بچوں کا خیال رکھنے میں انہوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہتے اور صرف بچوں کی زنجیر کے باعث یہ رشتہ بھی ابھی تک کسی نہ کسی طرح نبھ رہا ہے۔ اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ امی ابو میں جھگڑا ہوتا ہے یا دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہیں امی ابو ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتے ہیں اور پیار بھی اور لڑائی کے وقت سخت قسم کی گالم گلوچ۔ مجھے یاد ہے بچپن کی ایک لڑائی میں ابو نے غصہ میں آکر امی کو طلاق دے دی تھی پھر کچھ بڑوں کی مصالحت اور بچوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے رجوع کر لیا۔ مگر اس کے بعد ایک دوسرے کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نا، نانی، دادا، دادی یا دیگر رشتہ دار یا تو تھے نہیں اور اگر تھے تو باہر ملک میں رہا کرتے تھے۔ ہمارا گھر کراچی کے ایک پوش علاقے میں بارہ سو اسکوائر یارڈ پر مشتمل تھا۔ جس میں ایک بہت بڑا دالان اور اس کے اندر آگے پارک تھا۔ رشتہ داروں میں کوئی تھا نہیں تو گھر میں زیادہ تر تنہائی ہی چھائی رہتی تھی۔


ردا میری اکلوتی بہن تھی اور ہماری عمر میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔ میں پچس سال کا تھا تو وہ چوبیس سال کی۔ عمروں میں اتنا کم فرق ہونے کی وجہ سے ہم نےپہلے اسکول اور بھر کالج میں ساتھ ہی پڑھے تھے۔ اساتذہ بھی ہم کو ساتھ ہی بٹھاتے تھے۔ ظاہر ہے جب اتنی مماثلت ہو تو عادتیں اور رویے بھی باہم ہونے لگتے ہیں وہ لڑکی سے ٹام بوائے اور میں اس کے لئے لائی گئی گڑیوں سے کھیلتا تھا۔ بچپن کے انہی کھیلوں کی بدولت ہم دونوں پر جوانی اور بلوغیت کے کی نشانیوں کا پتا چلنا شروع ہوا ۔ میں اس کی گڑیوں میں نسوانیت ڈھونڈتا اور وہ گلی محلوں میں کھیلتے ہوئے لڑکوں سے انہی کے انداز میں باتیں کرتی۔ جسمانی تبدیلی کے جس عمل سے مجھے کہیں بعد گزرنا پڑا وہ اس میں کہیں پہلے آگیا اور میرے سامنے سینہ اکڑا کر چلنے والی ردا سینہ جھکا کر چلنے لگی، بھاگنے کے بھائے وہ اب ہلکے ہلکے چلتی۔ بڑوں کی نصحیتوں نے میرا اور گلی محلے کا ٹام بوائے چھین لیا تھا۔ تاہم میرے ساتھ اس کی اتنی بے تکلفی تھی کہ وہ ہر بات مجھے بتا دیتی۔ کمرا بھی ایک ہونے کی وجہ ہمارے بہت سے راز ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں تھے۔ بلکہ گرمیوں میں تو اکثر ہم قمیض اتار کر بیٹھا کرتے یا سویا کرنے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات تھی جب ہم دونوں میں سیکس کا جذبہ ان جانے احساس کی صورت بیدار ہو رہا تھا۔ مجھے خواب تو آتے مگر یہ خواب اس قدر تکلیف دہ ہوتے کہ جب میں اٹھتا تو کسی سے مارے شرم کے کچھ کہہ نہیں پاتا۔ عورتوں کے بدن کے وہ اعضا جو اب تک مجھ سے چھپے تھے وہ خوابوں میں اپنی عجیب و غریب ماہیت کے ساتھ آتے اور زیادہ تر ان خوابوں میں میرے آس پاس کے ہی لوگ ہوتے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ایسے خواب ردا کو بھی آتے ہونگے۔

جب ہم آٹھویں جماعت پہنچے تو بہت سی راز کی باتیں دوستوں کے ذریعے سے کھلنا شروع ہوئیں جیسے کہ عورتوں کی مخصوص ایام، مشت زنی کی لذت اور عورتوں کے جسم میں چھپی نسوانی خوبصورتیاں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے کچھ دوست اپنے ساتھ میگزین لایا کرتے تھے اور چھپ کر ایک دوسرے کو دکھایا کرتے تھے۔ پہلے پہل جب میں نے یہ رسالے دیکھے تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تاہم مجھے مزا بہت آیا۔ زندگی کے چھپے ہوئے مفہوم کچھ کچھ عیاں ہونے لگے تھے اور میں تنہائی میں اپنے بدن سے کھیلنے بھی لگا تھا۔ میرا یقین ہے کہ یہی عمل ردا کے ساتھ بھی جاری تھا۔ ایک بات جو ہم بہن بھائی کرتے رہے وہ آپس کی باتیں شیر کرنا تھیں۔ میں اور وہ اپنے دن بھر کی داستان ایک دوسرے کو بتاتے تاہم یہ نئی کارگزاریاں ایک دوسرے سے چھیا لیتے۔ مگر کافی عرصہ کہیں بعد میں پتا چلا کہ میری لایا ہوا ہر رسالہ میری بہن کی نظروں سے گزرا تھا۔

یہ دور وی۔سی۔آر کا تھا اور ہم گرمیوں کی چھٹیوں یا فارغ اوقات میں مووی دیکھا کرتے۔ مووی کی دکان گھر کے پاس تھی اور کرائے پر مووی حاصل کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ ہم اکثر اپنے ملازم کو بھیج کر مووی منگوا لیا کرتے۔ مادھوری، جوہی چاولہ، سری دیوی، دیویا بھارتی اس وقت کے آئیڈیل ہیروئن میں شمار کی جاتیں تھیں۔ اس زمانے میں فلموں کا موضوع بھی صرف پیار اور محبت پر ہی ہوا کرتا تھا۔ اور بعض اوقات تو یہ محبت اس انداز میں پیش کی جاتی تھی کہ ہم ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پاتے تاہم ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں ایسے سین دیکھا کرتے اور لذت حاصل کرتے تھے۔ فلموں میں کوئی بارش کا گانا آتا تو وہ تو ہمارے لئے جنت سے کم نا ہوتا۔ عورت کا بارش میں بھیگا ہوا بدن میرے جسم میں شدید بے چینی پیدا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک فلم شاہ رخ خان اور جوہی چاولہ کی ’’ڈر‘‘ تھی جس کے ہوشربا گانوں اور ننگے جسام پر مشتمل سین نے مجھے اور ردا کو لمبے عرصہ کے لئے پاگل بنا دیا تھا۔ میں نے اپنی پہلی مشت زنی جوہی چاولہ کو ہی دیکھ کر کی تھی۔ اسی طرح ردا بھی جوہی چاولہ بننے کی کوشش میں اپنے ڈوپٹے سے ساڑھی بناتی اور میرے سامنے ناچتی تھی۔ ایک روز اس نے مجھ سے پو چھا بھی کہ سنی دیول کی طرح میرے سینے پر بال کیوں نہیں ہیں میں نے ہنس کر کہا کہ تم بھی تو جوہی چاولہ کی طرح خوبصورت نہیں ہو جس پر اس کی بیت دنوں تک شکل بھی بنی رہی تھی۔ بہر حال اسی طرح مادھوری، ڈمپل کپاڈیہ اور دیگر ہیروئن کے خدوخال دیکھ دیکھ کر میرا اور مجھ جیسی نسل کا جنسی جذبی بیدار ہونا شروع ہوا۔ سیکس یا بدن میں بلوغیت کی جو معلومات ملتی دوستوں سے ملتی تھیں۔ بڑوں کے پاس یا تو وقت نہیں تھا یا وہ اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اور رہا سوال تعلیمی نظام کا تو اس کا تو کہنا ہی کیا۔

آٹھویں جماعت کی جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ایک دن میں کمرے میں بیٹھا رسالہ دیکھ رہا تھا۔ رسالہ کی جنسی تصاویر میں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ مجھے ردا کہ آنے کا قطعاَ احساس نہیں ہوا اور میں اس میں گم وہ رسالہ دیکھتا ریا جس میں انتہائی بھونڈے انداز میں جوہی چاولہ کی تصاویر کے ساتھ کھلواڑ کر کے کسی ننگے بدن میں فٹ کیا گیا تھا۔ صیح بات تو یہ ہے کہ ہم لڑکے جس بھونڈے انداز سے اپنی حیوانی جذبوں کی تسکین کرتے ہیں لڑکیاں اس کے برعکس اس جذبے کو پالتی ہیں وہ اپنی پیاس کو بہت دیکھ بھال کر پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ سارے کام کرتی بھی ہیں اور پتا بھی نہیں چلتا۔ اب میرے کیس میں ہی دیکھ لیں کہ وہ سارے رسالے جو میں دیکھتا تھا وہ ردا بھی دیکھتی تھی مگر مجھے احساس دلائے بغیر۔ بہرحال اس وقت ردا کہ کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو میرے پاس شرمندہ ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں نے گھبراہٹ میں کہا وہ یہ باہر کہیں پڑا ہوا تھا۔ ردا نے بھی مسکرا کر اس رسالے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا کہ ہاں بھیا یہ اور ایسے کئی اور رسالے تمہیں پاہر ہی سے تو ملتے ہیں نا۔ اس کا یہ کہنا میرے خاموش اعتراف کے مترادف تھا۔ اس کا مطلب اس کو میری ساری حرکتوں کا ن صرف علم تھا بلکہ وہ یہ خود دیکھتی بھی آئی تھی۔ میں نے شرمندہ ہوکر نظریں جھکا لیں۔ اس نے میری شرمندگی کی پرواہ کئے بغیر کہا کہ تمہیں کیا ملتا ہے اس رسالوں میں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ عابد یہ رسالہ بانٹ رہا تھا تو میں لے آیا ورنہ مجھے کچھ سروکار نہیں۔ اس نے بھی ہنس کے کہا کہ گھبراو نہیں میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی۔ مجھے بتاو کہ تمہیں کیا ملتا ہے یہ رسالہ دیکھنے میں۔ میں نے شرما کر اعتراف کیا کہ مجھے سکون ملتا ہے اور وہ باتیں جو کسی سے معلوم نہیں ہوتیں وہ پتا چلتی ہیں۔ اس دن ہم دونوں نے سیکس کے موضوع پر خوب باتیں کیں اور ایک دوسرے کو اپنے اعضا بھی دکھائے۔ شدت جذبات سے ہم اس دن ایک ساتھ نہائے بھی اور فلموں میں نظر آنے والا پیار بھی کیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوب چوما اور ایسا عمل ہم نے ایک بار نہیں بار بار کیا تاہم ایک روز امی کے جلدی آنے کی وجہ سے ہم پکڑے گئے اور ہمیں خوب مار پڑی اور ہمارے کمرےبھی الگ الگ ہو گئے۔ اس دن معاشرے کی کچھ قید و قیود کا پتا چلا۔
یہ میری ردا کے ساتھ بچپن کی پہلی جنسی یادیں تھیں جو آٹھویں جماعت میں الگ ہوگیں تاہم ہم ایک دوسرے کے دوست ضرور بنے رہے اور ایک دوسرے سے اس موضوع کو چھوڑ کر ساری باتیں کرتے۔ وقت نے ردا کو بھی بھر پور جوان بنا دیا تھا۔ ہم دونوں کی خوراک میں زمین میں دبی چیزیں مثلا پیاز، آلو، ادرک وغیرہ شامل تھیں تو حیوانی جذبات بھی انتہا کے تھے جو ردا کے جسم سے چھلک چھلک کر باہر آتے تھے۔