Thursday 25 October 2012

میری بہن



(اس کہانی میں واقعات اور نام فرضی ہیں)

میں کراچی کے علاقے میں رہنے والا لاکھوں اور کڑوڑوں لوگوں میں سے ایک ہوں مگر ٹھیرئے میری پہچان صرف کراچی کا باسی ہونا ہی نہیں بلکہ اس معاشرے کا رکن کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے جو اپنی ہر خواہش مذہب، سماج اور معاشرے کے دوغلے رویوں میں چھپاتے ہیں۔ ان خواہشات میں ایک منہ زور جذبہ جنسی خواہشات کا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں جاوں گا کہ یہ معاشرہ اس جذبے سے اتنا انکاری کیوں ہے مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جنسیات سے انکار زندگی سے انکار کے مترادف ہے۔ آپ اس ملک میں کہیں بھی کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں چاہے وہ کھیلوں کا میدان ہو، گلی ہو، پان کی دکان، جنگ کا میدان، گھر، دوستوں یا احباب کی گفتگو آپ سیکس کا موضوع ہر جگہ پائیں گے۔ مگر یہ بات کہہ کر آگےبڑھتے ہیں کہ میں اور آپ جس معاشرے کے نمائیندہ ہیں وہاں زندگی ممنوع ہے اور خواہشات اجتماعی سوچ کی غلام۔


بہر حال اپنے بارے میں بتاتا چلوں، میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور ہم دو بہن بھائی ہیں۔ میری امی اور ابو دونوں ہی ملازم پیشہ ہیں میرے ابو تو آرمی میں ہیں تو وہ اکثر اوقات شہر سے باہر ہی ہوتے ہیں۔ امی پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ ابو پنجابی اسپیکنگ اور امی اردو اسپیکنگ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امی ابو کوئی مثالی میاں بیوی نہیں ہیں تاہم ہم بچوں کا خیال رکھنے میں انہوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہتے اور صرف بچوں کی زنجیر کے باعث یہ رشتہ بھی ابھی تک کسی نہ کسی طرح نبھ رہا ہے۔ اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ امی ابو میں جھگڑا ہوتا ہے یا دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہیں امی ابو ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتے ہیں اور پیار بھی اور لڑائی کے وقت سخت قسم کی گالم گلوچ۔ مجھے یاد ہے بچپن کی ایک لڑائی میں ابو نے غصہ میں آکر امی کو طلاق دے دی تھی پھر کچھ بڑوں کی مصالحت اور بچوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے رجوع کر لیا۔ مگر اس کے بعد ایک دوسرے کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نا، نانی، دادا، دادی یا دیگر رشتہ دار یا تو تھے نہیں اور اگر تھے تو باہر ملک میں رہا کرتے تھے۔ ہمارا گھر کراچی کے ایک پوش علاقے میں بارہ سو اسکوائر یارڈ پر مشتمل تھا۔ جس میں ایک بہت بڑا دالان اور اس کے اندر آگے پارک تھا۔ رشتہ داروں میں کوئی تھا نہیں تو گھر میں زیادہ تر تنہائی ہی چھائی رہتی تھی۔


ردا میری اکلوتی بہن تھی اور ہماری عمر میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔ میں پچس سال کا تھا تو وہ چوبیس سال کی۔ عمروں میں اتنا کم فرق ہونے کی وجہ سے ہم نےپہلے اسکول اور بھر کالج میں ساتھ ہی پڑھے تھے۔ اساتذہ بھی ہم کو ساتھ ہی بٹھاتے تھے۔ ظاہر ہے جب اتنی مماثلت ہو تو عادتیں اور رویے بھی باہم ہونے لگتے ہیں وہ لڑکی سے ٹام بوائے اور میں اس کے لئے لائی گئی گڑیوں سے کھیلتا تھا۔ بچپن کے انہی کھیلوں کی بدولت ہم دونوں پر جوانی اور بلوغیت کے کی نشانیوں کا پتا چلنا شروع ہوا ۔ میں اس کی گڑیوں میں نسوانیت ڈھونڈتا اور وہ گلی محلوں میں کھیلتے ہوئے لڑکوں سے انہی کے انداز میں باتیں کرتی۔ جسمانی تبدیلی کے جس عمل سے مجھے کہیں بعد گزرنا پڑا وہ اس میں کہیں پہلے آگیا اور میرے سامنے سینہ اکڑا کر چلنے والی ردا سینہ جھکا کر چلنے لگی، بھاگنے کے بھائے وہ اب ہلکے ہلکے چلتی۔ بڑوں کی نصحیتوں نے میرا اور گلی محلے کا ٹام بوائے چھین لیا تھا۔ تاہم میرے ساتھ اس کی اتنی بے تکلفی تھی کہ وہ ہر بات مجھے بتا دیتی۔ کمرا بھی ایک ہونے کی وجہ ہمارے بہت سے راز ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں تھے۔ بلکہ گرمیوں میں تو اکثر ہم قمیض اتار کر بیٹھا کرتے یا سویا کرنے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات تھی جب ہم دونوں میں سیکس کا جذبہ ان جانے احساس کی صورت بیدار ہو رہا تھا۔ مجھے خواب تو آتے مگر یہ خواب اس قدر تکلیف دہ ہوتے کہ جب میں اٹھتا تو کسی سے مارے شرم کے کچھ کہہ نہیں پاتا۔ عورتوں کے بدن کے وہ اعضا جو اب تک مجھ سے چھپے تھے وہ خوابوں میں اپنی عجیب و غریب ماہیت کے ساتھ آتے اور زیادہ تر ان خوابوں میں میرے آس پاس کے ہی لوگ ہوتے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ایسے خواب ردا کو بھی آتے ہونگے۔

جب ہم آٹھویں جماعت پہنچے تو بہت سی راز کی باتیں دوستوں کے ذریعے سے کھلنا شروع ہوئیں جیسے کہ عورتوں کی مخصوص ایام، مشت زنی کی لذت اور عورتوں کے جسم میں چھپی نسوانی خوبصورتیاں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے کچھ دوست اپنے ساتھ میگزین لایا کرتے تھے اور چھپ کر ایک دوسرے کو دکھایا کرتے تھے۔ پہلے پہل جب میں نے یہ رسالے دیکھے تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تاہم مجھے مزا بہت آیا۔ زندگی کے چھپے ہوئے مفہوم کچھ کچھ عیاں ہونے لگے تھے اور میں تنہائی میں اپنے بدن سے کھیلنے بھی لگا تھا۔ میرا یقین ہے کہ یہی عمل ردا کے ساتھ بھی جاری تھا۔ ایک بات جو ہم بہن بھائی کرتے رہے وہ آپس کی باتیں شیر کرنا تھیں۔ میں اور وہ اپنے دن بھر کی داستان ایک دوسرے کو بتاتے تاہم یہ نئی کارگزاریاں ایک دوسرے سے چھیا لیتے۔ مگر کافی عرصہ کہیں بعد میں پتا چلا کہ میری لایا ہوا ہر رسالہ میری بہن کی نظروں سے گزرا تھا۔

یہ دور وی۔سی۔آر کا تھا اور ہم گرمیوں کی چھٹیوں یا فارغ اوقات میں مووی دیکھا کرتے۔ مووی کی دکان گھر کے پاس تھی اور کرائے پر مووی حاصل کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ ہم اکثر اپنے ملازم کو بھیج کر مووی منگوا لیا کرتے۔ مادھوری، جوہی چاولہ، سری دیوی، دیویا بھارتی اس وقت کے آئیڈیل ہیروئن میں شمار کی جاتیں تھیں۔ اس زمانے میں فلموں کا موضوع بھی صرف پیار اور محبت پر ہی ہوا کرتا تھا۔ اور بعض اوقات تو یہ محبت اس انداز میں پیش کی جاتی تھی کہ ہم ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پاتے تاہم ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں ایسے سین دیکھا کرتے اور لذت حاصل کرتے تھے۔ فلموں میں کوئی بارش کا گانا آتا تو وہ تو ہمارے لئے جنت سے کم نا ہوتا۔ عورت کا بارش میں بھیگا ہوا بدن میرے جسم میں شدید بے چینی پیدا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک فلم شاہ رخ خان اور جوہی چاولہ کی ’’ڈر‘‘ تھی جس کے ہوشربا گانوں اور ننگے جسام پر مشتمل سین نے مجھے اور ردا کو لمبے عرصہ کے لئے پاگل بنا دیا تھا۔ میں نے اپنی پہلی مشت زنی جوہی چاولہ کو ہی دیکھ کر کی تھی۔ اسی طرح ردا بھی جوہی چاولہ بننے کی کوشش میں اپنے ڈوپٹے سے ساڑھی بناتی اور میرے سامنے ناچتی تھی۔ ایک روز اس نے مجھ سے پو چھا بھی کہ سنی دیول کی طرح میرے سینے پر بال کیوں نہیں ہیں میں نے ہنس کر کہا کہ تم بھی تو جوہی چاولہ کی طرح خوبصورت نہیں ہو جس پر اس کی بیت دنوں تک شکل بھی بنی رہی تھی۔ بہر حال اسی طرح مادھوری، ڈمپل کپاڈیہ اور دیگر ہیروئن کے خدوخال دیکھ دیکھ کر میرا اور مجھ جیسی نسل کا جنسی جذبی بیدار ہونا شروع ہوا۔ سیکس یا بدن میں بلوغیت کی جو معلومات ملتی دوستوں سے ملتی تھیں۔ بڑوں کے پاس یا تو وقت نہیں تھا یا وہ اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اور رہا سوال تعلیمی نظام کا تو اس کا تو کہنا ہی کیا۔

آٹھویں جماعت کی جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ایک دن میں کمرے میں بیٹھا رسالہ دیکھ رہا تھا۔ رسالہ کی جنسی تصاویر میں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ مجھے ردا کہ آنے کا قطعاَ احساس نہیں ہوا اور میں اس میں گم وہ رسالہ دیکھتا ریا جس میں انتہائی بھونڈے انداز میں جوہی چاولہ کی تصاویر کے ساتھ کھلواڑ کر کے کسی ننگے بدن میں فٹ کیا گیا تھا۔ صیح بات تو یہ ہے کہ ہم لڑکے جس بھونڈے انداز سے اپنی حیوانی جذبوں کی تسکین کرتے ہیں لڑکیاں اس کے برعکس اس جذبے کو پالتی ہیں وہ اپنی پیاس کو بہت دیکھ بھال کر پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ سارے کام کرتی بھی ہیں اور پتا بھی نہیں چلتا۔ اب میرے کیس میں ہی دیکھ لیں کہ وہ سارے رسالے جو میں دیکھتا تھا وہ ردا بھی دیکھتی تھی مگر مجھے احساس دلائے بغیر۔ بہرحال اس وقت ردا کہ کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو میرے پاس شرمندہ ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں نے گھبراہٹ میں کہا وہ یہ باہر کہیں پڑا ہوا تھا۔ ردا نے بھی مسکرا کر اس رسالے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا کہ ہاں بھیا یہ اور ایسے کئی اور رسالے تمہیں پاہر ہی سے تو ملتے ہیں نا۔ اس کا یہ کہنا میرے خاموش اعتراف کے مترادف تھا۔ اس کا مطلب اس کو میری ساری حرکتوں کا ن صرف علم تھا بلکہ وہ یہ خود دیکھتی بھی آئی تھی۔ میں نے شرمندہ ہوکر نظریں جھکا لیں۔ اس نے میری شرمندگی کی پرواہ کئے بغیر کہا کہ تمہیں کیا ملتا ہے اس رسالوں میں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ عابد یہ رسالہ بانٹ رہا تھا تو میں لے آیا ورنہ مجھے کچھ سروکار نہیں۔ اس نے بھی ہنس کے کہا کہ گھبراو نہیں میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی۔ مجھے بتاو کہ تمہیں کیا ملتا ہے یہ رسالہ دیکھنے میں۔ میں نے شرما کر اعتراف کیا کہ مجھے سکون ملتا ہے اور وہ باتیں جو کسی سے معلوم نہیں ہوتیں وہ پتا چلتی ہیں۔ اس دن ہم دونوں نے سیکس کے موضوع پر خوب باتیں کیں اور ایک دوسرے کو اپنے اعضا بھی دکھائے۔ شدت جذبات سے ہم اس دن ایک ساتھ نہائے بھی اور فلموں میں نظر آنے والا پیار بھی کیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوب چوما اور ایسا عمل ہم نے ایک بار نہیں بار بار کیا تاہم ایک روز امی کے جلدی آنے کی وجہ سے ہم پکڑے گئے اور ہمیں خوب مار پڑی اور ہمارے کمرےبھی الگ الگ ہو گئے۔ اس دن معاشرے کی کچھ قید و قیود کا پتا چلا۔
یہ میری ردا کے ساتھ بچپن کی پہلی جنسی یادیں تھیں جو آٹھویں جماعت میں الگ ہوگیں تاہم ہم ایک دوسرے کے دوست ضرور بنے رہے اور ایک دوسرے سے اس موضوع کو چھوڑ کر ساری باتیں کرتے۔ وقت نے ردا کو بھی بھر پور جوان بنا دیا تھا۔ ہم دونوں کی خوراک میں زمین میں دبی چیزیں مثلا پیاز، آلو، ادرک وغیرہ شامل تھیں تو حیوانی جذبات بھی انتہا کے تھے جو ردا کے جسم سے چھلک چھلک کر باہر آتے تھے۔ 

4 comments:

  1. kis kis larki aunty baji bhabhi nurse collage girl school girl darzan housewife ledy teacher ledy doctor apni phodi mia real mia lun lana chati hia to muj ko call or sms kar sakati hia only leady any girl only girls 03025237678

    ReplyDelete
  2. kis kis larki aunty baji bhabhi nurse collage girl school girl darzan housewife ledy teacher ledy doctor apni phodi mia real mia lun lana chati hia to muj ko call or sms kar sakati hia only leady any girl only girls 03025237678

    ReplyDelete
  3. Casinos Near Santa Rosa (Santa Rosa) - Mapyro
    Search for Casinos Near Santa Rosa in Santa 정읍 출장안마 Rosa (Santa 서울특별 출장샵 Rosa) 화성 출장마사지 with 서산 출장마사지 Mapyro. 10 Closest Casinos to Santa 의왕 출장마사지 Rosa.

    ReplyDelete