Friday 26 October 2012

میری بہن حصہ دوئم

ہم دونوں بہن بھائی پڑھائی کے معاملے میں خاصے ذھین واقع ہوئے تھے اور امتحانات میں ھمیشہ امتیازی نمبروں سے کامباب ہوتے۔ ہماری انہی کامیابوں کی بدولت امی ابو ہم سے کم ہی ناراض ہوتے یا کوئی سختی کرتے تھے ابو تو گھر میں ہی بہت کم آتے تھے زیادہ تر اپنی فوجی نوعیت کی میٹنگز میں مصروف رہتے امی بھی ڈاکٹری کے شعبہ میں مصروف عمل تھیں اور گھر رات گئے تک آتیں تھیں۔ گھر میں موجود خانساماں سارا کام کرتی اور صفائی ستھرائی بھی نوکر چاکر ہی کیا کرتے تھے۔ امی کا ایک اصول تھا کہ بچوں کو اتنا پیسہ اور کانفڈنس دو کہ وہ اپنے ہر معاملات میں خود کفیل ہو سکیں۔ اور یہی معاملہ ہم بہن بھائیوں کے ساتھ تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے اور درا نے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا اب بچپن کے بہت سے سوالوں کا جواب ملنا شروع ہو گیا تھا۔ انٹرنیٹ کی آمد آمد تھی تو پڑھائی کے بعد میں زیادی تر وقت نیٹ پر گزارتا اور جنسی کہانیوں پر مبنی وئب سائٹ دیکھتا یا کوئی گندی فلم لگا لیتا۔ سیکس کے سارے معنی میں نے انٹرنیٹ سے سیکھے۔ یہ نہیں تھا کہ مجھ میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کی امنگ نہیں تھی۔ کلاس میں پڑھائی میں آگے ہونے کی بدولت لڑکے لڑکیاں دونوں ہی مجھ سے دوستی کرنا چاہتے تھے مگر میرا دماغ ان چیزوں سے آزاد اپنا کیرئر بنانے میں مصروف تھا۔ میں اس چیزوں کو لذت کی حد تک تو صیح سمجھتا تاہم اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا تھا۔ ردا میں ایک تبدیلی جو میں نے نوٹ کی وہ اس کے ٹام بوائے والے امیج سے لڑکی بننا تھا۔ وہ اپنی نیل پالش سے لے کر جیولری اور کپڑے تک خود پسند کرتی تھی اور اس کی الماری جدید قسم کے جوتوں، کپڑوں اور پرفیوم سے بھری ہوتی تھیں۔ موبائل فون کے آنے سے وہ دن رات فون پر بھی لگی رہتی۔ ایک اور تبدیلی جو میں نے اس میں محسوس کی وہ اس کے جسم کے مخصوص اعضا کی نشونما تھی۔ ردا اب دوستوں کے ساتھ بھی لانگ ڈرائیو اور پارٹیوں میں جانے لگی۔ امی کو ردا کا پڑھنا تو پسند تھا تاہم اس کی یہ حرکتیں امی کی برداشت سے باہر تھیں اور امی گاہے بگاہے اس کو ڈانٹتی رہتی تھیں۔ ردا عمر کے اس حصے میں تھی جہاں اس کو یہ ڈانٹ بہت بری لگتی تھی اور آہستی آہستہ وہ امی سے بد زن ہوتی گئی۔ اس کے برعکس امی کا رویہ میرے ساتھ بے حد اچھا تھا اور وہ اپنے کولیگ اور دوستوں کے سامنے اکثر کہتیں کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ جب امی یہ کہتیں تو ردا کی آنکھوں میں چھپی نفرت میں اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا۔


ردا نسوانی جوانی کا بھر پور شاہکار تھی۔ میں نے اس کے بدن کی کبھی پیمائش تو نہیں کی تھی تاہم اتنا جانتا تھا کہ بازار میں یا یونیورسٹی میں بہت سے لوگ اس کے بدن کے اندر اپنی نظریں گاڑتے ہیں اور اپنی ہوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کچھ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔ اس کا قد تو پانچ فٹ سے تھوڑا اونچا ہوگا مگر اس کے بدن کے دیگر حصے اپنے شباب پر تھے۔ میں عورتوں کے فگر ناپنے کر معاملے میں انتہائی کورا واقع ہوا ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ عورتوں کے بدن کی پیمائش کے جو استعارات عام زندگی میں استعمال ہوتے ہیں وہ سب ردا کے بدن پر فٹ آتے تھے۔ صراحی دار گردن، قندھاری انار جیسے رس بھرے ہونٹ، تربوز جیسے چوتڑ، چونسا آم کی مانند مخروطی ابھار، اندام نہانی ایسے ہوگی (خیالات کی حد تک) کہ لوکی کا اوپری حصہ آرام سے اندر چلا جائے۔ بہت دفعہ اس کے پیروں کو دیکھ کر میں نے مشت زنی کی ہے۔ اس کا گورا رنگ اس کی خوبصورتی تھا۔ گندم کے خمار کی طرح اس کے بابت مستی بھری جوانی کا خمار کا احساس بھی تڑپ اور لطیف جذبات پر مشتمل تھا۔ ردا کی خوبصورتی اس کے چلنے کے انداز سے پہچانی جا سکتی تھی۔ فیشن ایبل تو وہ بچپن سے تھی اور اس پر یہ انداز قیامت ڈھاتا تھا ایک تو چلتے وقت اس وہ بظاہر دنیا سے بے پرواہ ہوکر چلتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے لاشعور میں یہ بات ہوتی تھی کہ وہ بے حد حسین ہے۔۔ اس کا جسم عربی کہاوت کے بقول عورت کی خوبصورتی اس کے جسم پر چادر ڈال دو بھر جہاں جو ابھار زیادہ نظر آئے وہ عورت کی خوبصورتی ہے، کی مانند تھا۔ بازار یا یو نیورسٹی میں وہ اونچی ہیل والئ چپل کا استعمال کرتی اور سینہ اکڑ کے چلتی تھی۔ اس کے مخروطی ابھاروں کی نرماٰہٹ اس کے سینے کی اکڑاہٹ سے میل نہ کھاتے اور سینے اور مخروطی ابھاروں کی اکڑاہٹ کی لڑائی سے اس کے ابھار ہلکے ہلکے ہلتے اور بعض اوقات یہ مخروطی ابھار قمیض کے اوپر اپنی لائن بھی بناتے۔ ابھاروں کی یہ نرماہٹ کسی بھی ذی ہوش انسان کو پاگل کرنے کے لئے کافی تھی۔ ردا کے جسم کا پچھلا حصہ بھی لاجواب تھا۔ اور چلتے وقت ہلکا ہلکا ہلتا اور دیکھنے والوں کو دیوانہ بنا دیتا۔ بٓر ہونے کے بعد اس نے بھی اپنے جسم کی اس خوبصورتی کو محسوس کیا اور اپنے لباس میں جان کر تنگ قمیص اور شلواروں میں پٹیالہ کٹ یا تھوڑے تنگ پاجامے بنانے لگی اور اکثر یہ پاجامے اتنے تنگ ہوتے کہ ان کے درمیان کپڑا پھنس کے ان کی خوبصورتی مزید واضح ہو جاتی۔ غرور، ادا، انا، حسن اور معصومیت کے اس امتزاج نے درا کے جسم میں بچپن سے ہی ایک بھر پور عورت پیدا کر دی تھی۔ میری بہن ردا کے بدن کا حق ادا کرنا بہت مشکل تھا۔ سڑکوں محلوں میں چھیڑنا، ہاتھ لگانا یا کمنٹس پاس کرنا تو آسان تھا مگر اندر کی بھر پور عورت کی پیاس بجھانا ایسا تھا بہت مشکل تھا۔ میرے ذہن میں اس کو چلتے دیکھ کر ایک ہی خیال آتا کیا میں اس بدن کو بھرپور طریقے سے بانیوں میں بھر سکتا ہوں۔ یہ خیالات اور ردا کا انداز مجھے پاگل کر دیتے میں اپنی بہن کا بدن جانہوں میں بھرنے کو بیتاب تھا۔ جہاں جہاں یہ بدن کھلا ہوتا (مثلاَ بڑے گلے پہنتے وقت گردن یا سینے پر، بازو پر یا پیر) میرا دل چاہتا تھا کہ ایک اپنا منہ اس جگہ پر رکھ کر سارے دانت اس بدن میں اتر دوں اور ردا کی مستی بھری سسکاری سنوں

۔
آدھی رات کے وقت ہوگا کہ مجھے اپنے سینے پر کسی کے وجود کا احساس ہوا۔ میں نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہیں دی پھر بعد میں مجھے لگا کہ کوئی میرا نام لے ریا ہے میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو سامنے ردا تھی پہلے پہل تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تاہم بعد میں میں نے آنکھیں کھولیں اور نیند میں کہاکہ کیاہے۔ ردا نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اٹھایا اور چپکے سے اپنے ساتھ آنے کو کہا میں نیند اور ڈر کے احساس کے ساتھ اس کے ساتھ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ مجھے امی کے کمرے تک لے آئی اور اپنے ہونٹوں پر خاموشی کا اشارہ کیا اور مجھ سے کھڑکی کے زریعے امی کے کمرے میں جھانکنے کا کہا۔ میں نے امی کے کمرے میں جھانکا تو ایک شدید قسم کا جھٹکا لگا نائیٹ بلب کی روشنی میں امی کپڑوں سے آزاد ڈاکٹراحمدکے قدموں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ان کا اعضائے تناسل کو چوس رہی ہیں۔ اور نہ صرف چوس رہی ہیں بلکہ اتنی زور سے کہ ان کی آوازیں کمرے سے باہر تک آرہی تھیں۔ ڈاکٹر احمد جو امی کے دوستوں میں سے ہیں لذت کے مارے امی کہ منی میں لنڈ کو اندر پاہر کرتے ہوئے سسکاریاں بھر رہے تھے اور امی کو کہہ رہے تھے سلمہ اور چوسو۔۔۔آہ ہ ہ ہ اوووووووفف ف ف ف ف ف ف فسلمہ مار ڈالا تم نے تو۔ امی کا جسم آگے پیچھے ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا اور انکے منہ میں احمد انکل کا لنڈ پوری طرح اندر تک چلا جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر میری ٹانگوں سے جان نکل گئی۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھلا۔ ردا نے مجھ سے کہا کہ شعیب یہ بار مجھے بہت دنوں سے پتا ہے مگر میں کسی کو بتاتی نہ تھی۔ احمد انکل رات امی کے ساتھ ہی گزارتے ہیں اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے۔ میں نے بھی اس منظر کو اپنے ذہن سے نکال دیا اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ مگر اس واقع کا اثر یہ ہوا کہ ہم دونوں بہن بھائی گھر کے معاملات سے لا تعلق ہو گئے اور ایک روایتی گھر کے ماحول کی قید سے آذاد ہو گئے۔ اور یہ عمل آگے چل کے بنیاد بنا میرے اور ردا کے درمیان ایک الگ قسم کے رشتے کی۔


زندگی اسی طرح آگے بڑھتی گئی اور میں اور ردا یونیورسٹی میں آگئے۔میری دلچسپی آرٹس اور سماجیات کے موضوعات میں تھی تو میں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں داخلہ لیا۔ امی اس چیز کے بہت خلاف تھیں ان کے خیال میں مجھے ڈاکٹر یا بزنس اسٹڈیز میں داخلہ لینا چاہیے تھا۔ مگر میری سمجھ میں سوشل سائنسس کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔ اے لیول میں بھی میری انھی موضوعات پر گرفت تھی جو سماجیات کے دائدے میں آتے تھے ان میں نفسیات، عمرانیات، ابلاغیات، انٹرنیشنل ریلیشنز شامل تھے۔ ردا نے امی کی خواہشات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا اور ڈاکٹر بنے لگی۔



ردا کے اندر اب خاصی تبدیلی آگئی تھی وہ بہت چست کپڑے پہنتی اور چلنے کے انداز میں بھی ایک خاص قسم کی لوچ آگئی تھی۔ میں نے اپنی بہن کی آنکھوں میں اس جوانی کی مستی کو محسوس کر سکتا تھا جو ہر جوان اور بالغ لڑکی کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ نفسیات کا تو میں پہلے ہی سے اسٹوڈنٹ تھا اور ردا کا بھی پہلے سال نفسیات کا موضوع تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اس ٹاپک پر گھنٹوں بات کرتے۔ میرے دماغ میں بھی اب ایک منصوبہ آرہا تھا جس کی بدولت میں ردا کے حسین بدن تک رسائی کر سکتا۔ اور ردا بھی کوئی دودھ کی دہلی نہ تھی اس کے ایک نہیں کئی معاشقے چل رہے تھے اور وہ ڈیٹ پر بھی جانے لگی تھی۔ میرا دماغ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ جس بدن سے باہر والے لذت کشد کر رہے ہیں وہ میری بانہوں میں آجائے تو کیا بات ہے۔ میری آنکھوں میں اپنی بہن کے لئے ہوس ٹپکتی تھی۔ جب بھی ہمارا سامنا ہوتا تو میں نظروں نظروں میں پیغام دینے کی کوشش کرتا۔ اب دو ہی باتیں تھیں یا تو وہ اس پیغام کو سجھتی نہ تھی اور واقعی معصوم تھی۔ یا جان بوجھ کر انجان بن جاتی۔ مگر میں اتنی دفعہ اس کو غیر لڑکوں کے ساتھ جاتے اور آتے دیکھ چکا تھا کہ میرا دل نہیں مانتا تھا کہ وہ معصوم ہے اور کبھی کبھی اس کے ہونٹ اور صاف و شفاف بدن پر دانتوں کے نشان دیکھ کر تو اور بھی یقین ہو جاتا کہ وہ لڑکوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ آنکھوں آنکھوں میں تو اس کو بہت دفعہ پیغام دے چکا تھا مگر کوئی بات نہیں بنی۔ اس کی نگاہوں میں مستی اور شرارت تو ہوتی مگر اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ میں ورزش کرتے ہوئے اپنی قمیض اتار دیتا تو وہ میرے کسے ہوئے بدن کو پیاسی نظروں سے دیکھا کرتی تھی مگر کچھ کہتی نہیں۔ میں سمجھ چکا تھا کہ وہ تیار ہے پر پہل مجھے کرنی ہوگی۔ مگر کیسے؟ پھر میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور اس کو میں نے عملی جامہ پہنانے کا سوچا۔ نفسیات میرا اور اس کا پسندیدہ موضوع تھا اور مجھے آغاز وہیں سے کرنا تھا۔
ایک روز میں نے نفسیات پر بات کرتے ہوئے ازاہ مذاق ردا سے پوچھا ردا تمہیں پتا ہے اس پورے سماج کے سارے مسئلے کہاں سے شروع ہوتے ہیں ردا نے نفی میں سر ہلایا میں نے کہا کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان کے سارے مسائل پیٹ اور اس کے نیچے گھومتے ہیں۔ ردا کا چہرہ سرخ ہو گیا اس کو امید نہیں تھی کہ میں اتنی بڑی بات اچانک کہہ دوں گا۔ مجھے بھی اس کا احساس ہوا میں نے فورا بات کو بنایا اور کہا کہ میں ساینسدانوں کی کہی ہوئی بات کر رہا تھا۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔ ردا نے کہا ہاں مین سمجھتہ ہوں کہ انسان کے مسائل اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ صرف یہی بات اس کا سبب نہیں ہو سکتی۔ ردا کو گفتگو میں حصہ لیتا دیکھ کر میں نے بھی ہمت پکڑی اور کہا کہ میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ سارے مسائل نہیں بلکہ زیادہ تر مسائل۔ اچھا بتاو تم نے سگمنڈ فرائیڈ کو پڑھا ہے۔ درا نے کہا کہ ہاں بھائی وہ تو ہمارے کورس کا حصہ ہے۔ میں نے کہا کہ سگمنڈ فرائیڈ کو کورس نہیں معلومات کے لئے پڑھو تو فائدہ ہوگا۔ آگے کا مکالمہ درج ذیل ہے:



ردا: شعیب میں سمجھتی ہوں کہ فرائیڈ نے زندگی کے ایک ہی نظریہ کو زیادہ بڑا کر کے دکھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف جنسیات ہی زندگی کا زاویہ طر نہیں کرتی۔ اس کے کچھ اور پیمانے بھی ہوتے ہونگے۔

(میرے ذہن مٰں اس وقت ایک پلان چل رہا تھا اور میرا شیطانی دماغ پوری طرح اپنی بہن کے نشے میں کھویا ہوا تھا)

میں: ہاں ردا تم صیح کہتی ہو مگر فرائیڈ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ زندگی کا محور جنسیات میں ہے مگر یہ بہت اہم چیز ہے اور اگر سماج اور فرد اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو خاصے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

ردا: مگر شعیب فرائیڈ نے تو اور کچھ بھی ایسا کہا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔

میں؛ مثلاَ

ردا: بھائی تم جانتے ہو کہ میں کیا بول کر رہی ہوں۔

میں نے قدرے انجان بنتے ہوئے کہا: ہاں مجھے پتا ہے مگر تم اپنے منہ سے کہو تاکہ کو ابہام نہ رہے اور پلیز مجھ سے کیسی شرم میں تو تمہارا ڈیر بھائی ہوں اور ہم دونوں سائنس کے اسٹوڈنٹ۔ تو ہم جو گفتگو کریں گے وہ معلومات کی غرض سے کریں گے۔ اس میں کیسی شرم۔

ایک ہی سانس میں میں نے ردا کا اعتماد جیت لیا اور اس کے اندر کی جھجک کو مٹانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اب تھوڑے سی محنت کے بعد ردا میری رنڈی بن سکتی تھی۔

ردا نے اب قدرے اعتماد سے کہا: ردا نے کہا کہ فرائیڈ نے تو یہ بھی کہا تھا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی جنسیاتی عمل میں حصہ لینا شروع کر دیتا ہے اور ماں کی چھاتیاں اس کا پہلا شکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں اپنے باپ میں جنسی کشش مضسوس کرتی ہیں۔

میں: ہاں تو اس میں کیا غلط ہے اس نے یہ بات صیح یا غلط کے تباظر میں نہیں کہی بلکہ ایک حقیقت بتائی ہے۔ تم مجھے بتاو کہ کیا ایسا نہیں ہے۔ سب چھوڑو اس گھر کی ہی مثال لے لو۔ میں آٹھویں کلاس تک امی کے ساتھ سویا۔ اور ان سے چپک کر سونے میں مجھے مزا آتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ رویہ کیا ہے مگر ایک کشش تھی جو امی میں محسوس ہوتی تھی۔ کیا تم ابو میں یہ کشش محسوس نہیں کرتی تھیں۔

ردا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اب میرا منصوبہ کامیابی کے بہت نزدیک تھا۔ ردا کی آنکھوں میں بھی ایک خاص قسم کی شرماہٹ اور حرامی پن کے ملے جلے احساس آرہے تھے۔

میں نے کہا: ردا میں سماجیات کا طالب علم ہوں اور معاشرے کی سائنس یہ کہتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی اصول جامد نہیں ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ تم کو پتا ہے کہ رومن دور میں دنیا کی ّبادی کے بھنے کی کیا وجہ تھی؟ میں نے ردا سے دریافت کیا۔
ردا نے جانتے یا نہ جانتے ہوئے بھی نہیں میں سر ہلایا

میں نے کہا کیونکہ اس زمانے میں ماں باپ، بہن بھائی، چچا بھتیجی، غرض کسی قسم کے رشتوں میں جنسیاتی تعلق کی کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ بہن بھائی آگے چل کر میاں بیوی بنتے۔ اور تو اور ماں یا باپ بھی اپنے بچوں سے سیکس کیا کرتے تھے۔

میں نے ایک ہی سانس میں یہ کہہ تو دیا مگر میں ردا کا رد عمل جاننے کے لئے بیتاب تھا میں نے ردا کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ بھی کسی حد تک اس گفتگو کا موضوع سمجھ چکی تھی۔
ردا نے کہا۔ مگر یہ تو اصولوں کے خلاف بات ہوئی نا؟

میں: وہ کیسے؟ تم جانتی ہو کہ معاشرہ کسی جامد شے کا نام نہیں یہاں کی اخلاقیات اور فلسفہ انسان طے کرتے ہیں۔ اچھا تم کہتی ہو کہ یہ خلاف اصول ہے۔ اصول کون طے کرتا ہے؟ ہم یا قدرت؟ اگر ہم انسان طے نہیں کرتے تو قدرت ہی کرتی ہوگی۔ ظاہر سی بات ہے۔ اور مجھے ایک بات بتاو کہ ہم میں اور جانوروں میں قدرت کے نزدیک کون ہوتا ہے؟ جانور؟ میں نے دریافت کیا۔ تو اگر ماں باپ ، بہن بھائی اور سگے رشتہ داروں میں یہ فعل خلاف قدرت ہے تو یہ جانوروں میں کیوں پایا جاتا ہے جو ہم سے زیادہ قدرت کے نذدیک ہیں۔ وہ کیوں ان رشتوں کو بھلا کر ایک دوسرے پر چڑھ جاتے ہیں اور اپنی جنسی خاہشات کو پورا کرتے ہیں۔ کیا ہم انسان ایسا نہیں کر سکتے۔

اکتوبر کا مہینہ تھا اورموسم میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ کراچی میں ان دنوں موسم خشک ہوتا ہے۔ میرے اندر کا ڈر اپنے آپ کو ظاہر تع کر رہا تھا مگر میرے اندر کے جنسی جانور نے ردا کو چودنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ ردا کا بدن مجھ کو بیتاب کر رہا تھا۔ اس کے ہونٹ ہلکے ہلکے خشک تھے اور جسم تھوڑا بھرا ہوا باتوں کی شدت سے اس کا منہ ہلکا ہلکا سرخ ہو رہا تھا۔ میں ردا کو اس نقطہ پر لے آیا تھا کہ وہ پوری طرح زہنی طور پر تیار ہو چکی تھی بس ایک موقع کی کمی تھی۔ اب میں نے اس گفتگو کو ذاتیات پر اتارنا شروع کیا۔
میں نے کہا کہ ردا اور یہ سب ہمارے شعور اور لاشعور کی جنگ ہے۔ یہ جذبہ ہر ایک کے لاشعور میں ہوتا ہے بس کمی ہے تو اس کو شعور میں لانے کی۔ تم کو یاد ہے ہم نے بچپن میں امی کو ننگا دیکھا تھا انکل احمد کے ساتھ۔ وہ ان کا چوس رہیں تھیں۔ یاد ہے نہ تم کو؟
درا نے ہاں میں سر ہلایا۔
میں نے کہا ردا تم کو پتا ہے اس واقعی کے بعد میں نے ایک عرصہ تک یہ منظر سوچ سوچ کر مشت زنی کی تھی اور خوابوں میں کئی بار امی کو ننگا دیکھا تھا۔ ایسے خواب جس میں امی ایک دم ننگا ہوکر میرا لنڈ اوپر سے نیچے تک چوستیں۔
ردا کی سانسوں کی آنچ تیز ہونی شروع ہوگئی تھی اور میں جان کے ایسے الباظ استعمال کرتا جس سے اس جنسی جذبات بھڑک اٹھتے اور ماحول اور گرم ہو جاتا اور میری بہن تو تھی ہی آگ کا الاو بس ایک ماچس جلا کر اس الاو کو روشن کرنا تھا اور پھر اس کی شدت میں جسم کو جلانا تھا۔ اب میں نے اپنا آخری داو چلا۔
میں نے کہا ردا تم کو یاد ہے کہ ہم بچپن میں ایک ساتھ نہایا کرتے تھے۔ یہ سب ہمارے درمیان جنسی جذبات کی نشانی نہیں تو کیا تھا۔ اور میں بتاوں تم امی اور انکل احمد کے جنسی تعلقات کو بہت پہلے سے جانتی تھیں مگر تم نے اسی وقت مجھے بتایا جب امی نے ہم دونوں کو نہاتے ہوئے پکڑا۔ یہ ایک طریقے سے تم نے امی سے انتقام لیا تھا۔ بولو کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔
ردا کے پاس ہاں کہنے کو علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اب میں ردا کے نزدیک ہوا اور کہا کہ ردا سچ بتاو بچپن میں مزا نہیں آتا تھا ایک ساتھ نہانے میں۔ دل نہین چاہتا ایسا دوبارہ کرنے کو۔ یہ کہتے کہتے میں ردا کے گرم بدن کے بہت نزدیک آچکا تھا۔

ردا نے کہا کہ بھائی کیا کر رہے ہو۔ مگر ساتھ ساتھ کہا کہ ہاں آتا تھا۔ مارے شرم کے اس کی گردن جھک چکی تھی۔ برسوں سے جاری شرافت کا کھیل ختم ہونے کے نزدیک تھا اور میری بہن کا گرم بدن میری بانہوں میں آنے والا تھا
میں نے کہا: ردا تمہارا بدن بہت سندر ہے اس کو اپنے بھائی کی بانہوں میں نہیں دو گی۔

4 comments:

  1. bus is se aahe read karne ki himmat nai he ...JANWAR KAHINKE TUNE IMRANIXAT IBLAGIAT NAFSIAT TO PAHEDI LEKIN AGAR TO MAZHABIAT BHI PHADLETA TO .TO JANVER NA BANTA .YEHI TO FARAQ HE JANVER AND INSAN ME .JISE TONE CHOR DIYA. .AGAR JANVER KI TARHA SEX KARNA ACHA LAGTA HE TO .HAR CHEZ JANVER KI TARHA KAR NA PHIR .jese .insan o janvar ko phadna khana .har chez har bala ko khajana .mare howi makhloq .peshab gowo .sanp bicho .aur khud ko bhi katna ..sirf sex hi kyon .har chez ke maze lo .bewaqof ...

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. جو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ رٸیل میں فون کال یا وڈیو کال اور میسج پر لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں 03488084325

    ReplyDelete